معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
معیت گر نہ ہو تیری تو گھبراؤں گلستاں میں رہے تو ساتھ تو صحرا میں گلشن کا مزہ پاؤں (احمدؒ ) اور صحرا کے سکوت سے انھیں پیامِ دوست ملتاہے ؎ گیا میں بھول گلستاں کے سارے افسانے دیا پیام کچھ ایسا سکوتِ صحرا نے (احمدؒ ) یعنی صحرا کی خاموشی نے پیامِ دوست کی کچھ ایسی غمازی کی کہ اس کے لطف کے سامنے ہم دنیائے فانی کی چند روزہ بہار کے سب افسانے بھول گئے۔ کوہ ودریا، دشت ودمن سے دیوانہ وار گزرتاہوا وہ بادشاہ اپنی حدودِ سلطنت سے نکل کر سرحدِ تبوک میں داخل ہوگیااور چہرے پر نقاب ڈال لی تاکہ چہرے کی جلالتِ شاہانہ سے لوگ نہ سمجھیں کہ یہ گدڑی پوش کسی ملک کا رئیس یا بادشاہ ہے۔ ملک ِ تبوک میں اس بادشاہ پر جب کئی فاقے گزر گئے تو ضعف ونقاہت سے مجبور ہوکرمزدوروں کے ساتھ اینٹیں بنانے لگا۔ اگرچہ چہرے پر نقاب پڑا رہتا تھا لیکن جب کبھی ہوا کے جھونکوں سے ہٹ جاتاتو شاہی چہرے کا جلالِ شاہانہ مزدوروں پر ظاہر ہوجاتا۔آخر کار مزدوروں میں تذکرے ہونے لگے کہ یہ نقاب پوش کسی ملک کا سفیریا کسی سلطنت کا بادشاہ معلوم ہوتاہے۔ رفتہ رفتہ خبر ساری سلطنت میں مشہور ہوگئی اور شاہِ تبوک تک بھی پہنچ گئی۔ بادشاہ کو فکر ہوئی کہ مزدور کے بھیس میں کسی دوسری سلطنت کا بادشاہ یا سفیر کہیں جاسوسی نہ کررہاہو اور میری سلطنت کے راز معلوم کرکے حملہ آور ہونے کامنصوبہ نہ بنارہاہو۔تحقیق کرنی چاہیے کہ ماجرا کیاہے۔شاہِ تبوک نے فوراً سامانِ سفر باندھا اور مزدوروں کے جھرمٹ میں گھس گیا۔ جہاں وہ نقاب پوش اینٹیں بنارہاتھا۔ بادشاہ نے اس کے علاوہ تمام مزدوروں کو دور ہٹادیا اوراس صاحبِ جمال کا نقاب اٹھادیااور دریافت