معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
فرماتے ہیں کہ نبوت عطاہونے سے پہلے مجھے خلوت محبوب کردی گئی۔ چناں چہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم تمام خلق سے کنارہ کش ہوکرغارِ حرا میں کئی کئی دن تک یادِ الٰہی میں مشغول رہتے تھے ۔ بالآخر عشقِ حقیقی نے اس بادشاہ کو بھی تخت وتاج سے بے زار کرکے آدھی رات کو جنگل کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا ؎ عشقِ حق نے جب کیا اپنا اثر عیش و راحت کر دیا سب تلخ تر عشق کی لذت کو شہ جب پا گیا تاجِ شاہی اس نے سر سے رکھ دیا تختِ شاہی فقر سے مُبدلْ ہوا حَبّذا اے عشقِ صادق حَبّذا عشق نے ایسے ہزاروں بادشہ کردیے بے ملک و بے تخت و کلہ عشق کی لذّت کو ان سے پوچھیے جن کے سینے عشق سے زخمی ہوئے (اختر راقم الحروف) اہلِ ظاہر اس لذت کو کیا جانیں؟ انھیں کیا معلوم کہ خلوت، تنہائی اور جنگل کے سناٹے میں کیا لطف ہے؟ اس کا لطف تو اللہ والوں سے پوچھو، جن کی جانیں دنیائے فانی کی عارضی بہاروں سے مستغنی ہوکر خلوت میں حق تعالیٰ کے قرب سے مسرور رہتی ہیں۔ یہ وہ خلوت ہے کہ لاکھوں جلوتیں اس پر قربان ہوں۔ یہی معیّت ہے اس محبوب حقیقی کی جو ان کی تنہائیوں کو پُر بہار کرتی ہے۔ ایک بزرگ مولانا محمد احمدصاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎