معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
(۴)پس معلوم ہواکہ کوئی ہنر کام آنے والا نہیں ہے سوائے ایک ہنر کے اور وہ یہ ہے کہ اس دنیا کے ظلمت کدے میں اللہ کو پہچاننے والی نظرپیدا کی جائے جیسے کہ وہ شخص جس کی نگاہ سلطان شناس تھی کہ اپنے اسی ہنر کی وجہ سے قہر وانتقامِ شاہی سے خود بھی بچ گیااور دوسروں کے لیے بھی سفارش کی۔ باقی ساری خاصیتیں آلۂ سزا وعقوبت ہوگئیں۔ لیکن ؎ جز مگر خاصیتِ آں خوش حواس کہ بشب بود چشمِ او سلطان شناس صرف اس خوش حواس کی نگاہِ سلطان شناس کام آئی جس نے رات میں سلطان کو پہچان لیا تھا۔ پس نصیحت اس میں یہ ہے کہ یہ دنیا بھی ظلمت کدہ ہے ، یہاں کی اندھیری میں جو بندہ اتّباعِ شریعتِ الٰہیہ کی برکت سے اپنے اللہ کو پہچان لے گا وہ قیامت کے دن خود بھی نارِ جہنّم کی عقوبت سے خلاصی پائے گا اور دوسرے مجرمین(گناہ گاراہلِ ایمان) کےلیے بھی سفارش کرے گالیکن اپنی اس معرفت اور لطفِ حق پر مغرور نہ ہوگابلکہ خوف اور امید کے درمیان بصد عجز و نیازِ عبدیت شفاعت کرے گا پھر حق تعالیٰ جس کے لیے چاہیں گے اس کی سفارش قبول فرماکر اپنی شانِ رحمت کا ظہور فرمائیں گے اور جس کے لیے نہ چاہیں گے تو از راہِ عدل اپنی شانِ قہر وانتقام ظاہر فرمائیں گے، پس بہت خوش نصیب ہے وہ بندہ جس نے دنیا میں رہ کرنگاہِ معرفت پیدا کرلی اور اپنے اللہ کو پہچان لیا۔ عارفین جن کی روحیں اپنے مجاہدوں اور ریاضتوں کے ذریعے آج اللہ کو پہچان رہی ہیں، کل حشر کے دن یہی عارفین اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور نجات پائیں گے اور ان کی سفارش گناہ گاروں کے حق میں قبول کی جائے گی۔ جس وقت کفار ومجرمین کو ان کے ہنروں کی بدولت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگ میں داخل کیا جارہاہوگا اس وقت یہ فاقہ زدہ چہرے،یہ پیوند کپڑے والے ، بوریا نشین جن کا آج مذاق اڑایا جاتاہے، اپنے اللہ کو نگاہ بھرکر دیکھ رہے ہوں گے۔ اس وقت مجرمین ان پر رشک کریں گے کہ کاش! دنیا میں ہم بھی ان ہی کی طرح رہے ہوتے اور ان کا ہنر سیکھا ہوتا۔ یعنی نگاہِ معرفت پیدا کرلی ہوتی۔