معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اس وقت میرے قہروغضب سے تمھیں کون بچاسکے گا۔ ۲)اس حکایت سے یہ نصیحت بھی ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کی سزافی المآل یعنی آخرت میں دیں گے۔ اگرچہ دنیا میں فی الحال نظر انداز فرمادیں ۔ جیسے خزانۂ شاہی کی چوری کے وقت سلطان اگرچہ چوروں کو دیکھ رہاتھااور ان کے پاس ہی تھالیکن اس حال میں ان کو سزا نہ دی بلکہ انجام کار گرفتار کرالیا۔ اگر ہرروز یہ مراقبہ کرلیاجائے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں تو گناہ کے ارتکاب سے خوف محسوس ہوگا۔ ۳)تیسری نصیحت یہ ہے کہ قیامت کے دن کوئی ہنر کام نہ دے گابلکہ وہ تمام اعمال جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف انسان سے سرزد ہورہے ہیں، قیامت کے دن اس کی گردن بندھوادیں گے۔ گو دنیا میں ان کو ہنرسمجھاجاتا ہو، جس طرح چوروں نے اپنے فن کو موقعِ کمال میں پیش کیا تھالیکن ان کمالات ہی نے ان کی مُشکیں کسوادیں ؎ ہریکے خاصیتے خود را نمود ایں ہنرہا جملہ بدبختی فزود ہر ایک نے اپنی خاصیت دکھائی اور اپنا کمالِ ہنر پیش کیا۔ لیکن ان تمام ہنروں سے ان کی بدبختی اور بڑھ گئی۔ جو ہنرجان کو خالقِ جان سے آشنا نہ کرد ے اور دل کا رابطہ حق تعالیٰ سے قائم نہ کردے اور اللہ کی یاد کا ذریعہ نہ ہوجاوے وہ ہنر نہیں ہے،وبال ہے۔ انسان کی جو قوتیں اللہ تعالیٰ سے بغاوت،سرکشی اور غفلت میں صرف ہورہی ہیں وہ ایک دن اس کومجرم کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے حضورمیں پیش کریں گی۔ آج دنیا کی جو قومیں سائنسی ترقی کے ذریعے تسخیرِماہتاب کو اپناکمال سمجھ رہی ہیں اوراللہ تعالیٰ سے منہ موڑ کراپنی زندگی کے ایام گزاررہی ہیں، انھیں کل قیامت کے دن پتا چلے گا کہ ان کا یہ کمالِ ہنرقابلِ انعام ہے یا موردِ قہر وغضب ؎ تسخیرِ مہر و ماہ مبارک تجھے مگر دل میں اگر نہیں توکہیں روشنی نہیں (اکبرؔ)