معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اس شہرِ حوادث یعنی کائنات میں تما م تر حاکمیت خاص ہے اللہ تعالیٰ کو اور وہی انتظامِ کائنات کا حقیقی فرمانروا ہے۔ ہیچ برگے برنیفتد از درخت بے قضا و حکمِ آں سلطانِ بخت کوئی پتا درخت سے جدا نہیں ہوسکتا بغیر اس سلطانِ حقیقی کے حکم و فیصلے کے۔ از دہاں لقمہ نشوسوئے گلو تا نگوید لقمہ را حق کا دخلوا کوئی لقمہ منہ سے گلے کی طرف نہیں بڑھ سکتا جب تک کہ حق تعالیٰ اس کو حکم نہیں فرماتے کہ داخل ہوجا۔ در زمین و آسمانہا ذرۂ بر نجنباند نگردد پرۂ زمین و آسمان میں کوئی ذرہ بغیر حکمِ الٰہی کے نہ تو اپنی جگہ سے حرکت کرسکتاہے اور نہ اڑسکتاہے۔ معنیٔ جف القلم کے ایں بُوَد کہ جفا ہا با وفا یکساں شود نوشتۂ تقدیر کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہم خیر و شرمیں مجبورہیں، تقدیرِ الٰہی کا مفہوم صرف یہ ہے کہ ہم اپنے اختیار و ارادے سے جو خیر وشر کرنے والے تھے حق تعالیٰ شانہٗ نے اپنے علمِ ازلی ابدی سے اس کو محفوظ فرمادیاہے۔ پس اسی علمِ الٰہی کا نام تقدیرِ الٰہی ہے۔ اس سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ انھوں نے ہمیں مجبور کردیا۔ اللہ تعالیٰ ظلم سے پاک ہیں، ان کو بندوں کی ہدایت اگرعزیز تر نہ ہوتی تو سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خونِ مبارک جس کا ہر قطرہ بھی امام ہے تمام انسانیت کے قطراتِ لہوکا، بازارِ طائف میں ہماری ہدایت کے لیے نہ بہتا۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں سورۂ احزاب میں: وہ ایسا رحیم ہے کہ وہ خود بھی اور اس کے فرشتے بھی تم پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں تاکہ حق تعالیٰ تم کو