معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حق تعالیٰ نے دنیامیں کوئی چیز بھی حکمت سے خالی نہیں پیدا فرمائی چناں چہ غصہ و شہوت، علم و مکر وغیرہ اخلاقِ حمیدہ واخلاقِ رذیلہ سب میں حکمتیں مضمر ہیں۔ بری خواہشات کی حکمت مولانا نے دوسرے مقام پر بیان بھی فرمائی ہے۔ شہوتِ دنیا مثالِ گلخن است کہ از و حمامِ تقویٰ روشن است کہ دنیا کی خواہشیں(حُبِّ جاہ و مال وزن) یہ ایندھن ہیں حمامِ تقویٰ کے لیے، تقویٰ کا حمام ان ہی سے روشن ہوتاہے جب ان کے تقاضوں پر عمل نہ کیا جاوے اور ان تکالیف پر صبرکرلیاجاوے جوان خواہشات کے خون سے ہوتاہے ؎ ہزار خونِ تمنا ہزارہا غم سے دلِ تباہ میں فرمانروائے عالم ہے (اخترؔ) میکدہ میں نہ خانقاہ میں ہے جو تجلی دلِ تباہ میں ہے دلِ تباہ سے مراد وہ دل ہے جس نے مولیٰ کو راضی کرنے کے لیے اپنی تمام ناجائز خواہشات پر صبر کیاہے۔ خلقِ آبی را بود دریا چو باغ خلقِ خاکی را بود آں درد و داغ پانی کی مخلوق دریا کو باغ سمجھتی ہے اور خاکی مخلوق دریا کو اپنے لیے درد و تکلیف کا سبب سمجھتی ہے۔ زید اندر حقِ آں شیطاں بود در حقِ شخصِ دگر سلطاں بود مثلاً زید اپنے حاسد و دشمن کی نگاہ میں شیطان ہے تو اپنے دوستوں کی نظر میں وہی زید سلطان نظر آتاہے۔