معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تیر پیدا بیں و نا پیدا کماں جانہا پیدا و پنہاں جانِ جاں کمان بعض وقت چھپی ہوتی ہے اور اس سے نکلا ہواتیر دکھائی دیتاہے۔ روح کو تو جسم کی حرکت سے سمجھ لیتے ہو مگر روح الارواح کو سمجھنا مشکل ہے کہ وہ مخفی در مخفی ہے۔ صورتِ دیوار و سقف ہر مکاں سایۂ اندیشۂ معمار داں ہرمکان کی چھت اور دیوار کا نقش آنکھوں کے سامنے ہے مگر یہ نقش جس معمار کے سایۂ فکر کا عکس ہے وہ مخفی ہے۔ خود نباشد آفتا بے را دلیل جز کہ نورِ آفتابِ مستطیل آفتاب کے وجود کی دلیل کے لیے اس کا نورِ مستطیل کافی ہے اور ایسی روشن دلیل کے بعد پھر بھی اس کے لیے دلیل کی ضرورت محسوس کرنا طبعِ خفاشیت کی دناءت(یعنی چمگادڑ کامزاج رکھنے والی طبیعت کی کمینگی)وذلت کے سوا کچھ نہیں۔ جسم ظاہر روح مخفی آمدہ ست جسم ہمچوں آستیں جاں ہمچو دست جسم ظاہر ہے روح مخفی ہے جس طرح ہاتھ مخفی ہے اور آستین ظاہر ہے۔ ایں سخن و آواز از اندیشہ خاست تو ندانی بحرِ اندیشہ کجاست یہ گفتگو اور آوازِ تکلم دماغی فکر سے پیدا ہوتی ہے مگر آواز اور سخن تو ظاہر ہے اور فکر کاسمندرمخفی ہے حتیٰ کہ آپریشن کے بعد بھی دماغ میں فکر کا خزانہ نظر نہیں آتا۔ در گزر از ذات و بنگر در صفات تا صفاتت رہ نماید سوئے ذات