معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
وَبِضِدِّھَاتَتَبَیَّنُ الْاَشْیَآءُاشیاء اپنی ضد سے ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اور چوں کہ حق تعالیٰ کی ضد نہیں ہے اس لیے وہ ذاتِ پاک پنہاں اور مخفی ہے۔ ہر کرا باشد ز سینہ فتحِ باب او زہر ذرّہ ببیند آفتاب جس شخص کے سینے میں نورِ حق داخل ہوگیا وہ ذرۂ کائنات میں آفتابِ حق کی تجلیات کا مشاہدہ کرتاہے۔ نورِ نورِ چشم خود نورِ دل است نورِ چشم از نورِ دلہا حاصل است آنکھ کی روشنی کی صحتِ ادراک(بصارتِ صحیحہ) دل کی بصیرت کی روشنی کے تابع ہے، قلب جس قدر نورانی ہوتاجاتاہے اسی قدر بصارت نورِ فراست سے مشرف ہوتی جاتی ہے۔ باز نور ِ نورِ دل نورِ خدا ست کو ز نورِ عقل و حس پاک وجداست اور قلب کو نور ذکر اللہ کی کثرت سے عطاہوتاہے جس کے قلب میں اللہ تعالیٰ کے خوف اور ان کی محبت کا نور جس قدر ہوگا اسی قدر اس کا دل نورانی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا نور عقل وحواسِّ خمسہ کے نور سے جدا اور پاک ہے۔ خلاصہ یہ کہ آنکھ کائنات سے اللہ تعالیٰ کی معرفت اس وقت حاصل کرنے کے قابل ہوتی ہے جب اس کی روشنی دل کی روشنی سے وابستہ ہو اور دل کی روشنی وہ معتبراور مفید ہے جو نورِ خدا سے حاصل ہوئی ہو۔ پس خدا کا نور دل میں اور دل کا نور آنکھوں میں ہوتوکائنات کا ہر ذرہ خدا کے وجود پرگواہ نظرآئے گا۔ حق پدید است از میانِ دیگراں ہمچو ماہ اندر میانِ اختراں حق تعالیٰ اپنی مخلوقات میں اس طرح ظاہرہیں جس طرح ستاروں میں چاند نمایاں اور ممتاز ہوتاہے اور جنت میں اسی طرح مشاہدۂ جمال عطاہوگا۔ حدیث شریف میں آیاہے کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جنت میں