معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پر و بالِ ما کمندِ عشقِ اوست موکشانش می کشد تا کوئے دوست حق تعالیٰ کی محبت اور جذب و توجہ کی کمند ہمارے لیے بال و پر کاکام دیتی ہے جو عاشقوں کو کوچۂ یار تک پہنچادیتی ہے ؎ نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوقِ عریانی کوئی کھینچے لیے جاتاہے خود جیب وگریباں کو من چہ گویم ہوش دارم پیش و پس چوں نباشد نورِ یارم پیش و پس اگر خداوند تعالیٰ کا نور میری راہنمائی کرنے والا نہ ہو تو مجھے اپنے پیش وپس کی کیاخبررہے اور مکرِ شیطان و نفس سے کس طرح محفوظ رہوں گا۔ نورِ او در یمن ویسر و تحت و فوق بر سرم بر گردنم مانندِ طوق اس کا نور دائیں بائیں اور نیچے اوپر ہر طرف جلوہ گر ہے اور میرے سروگردن پر مانندِ طوق حاوی ہے یعنی حق تعالیٰ کی معیتِ خاصّہ مجھے حاصل ہے۔ عشق خواہد کایں سخن بیروں رود آئینہ ات غماز نبود چوں بود عشق تو چاہتاہے کہ میرا یہ درد اور مخلوق میں بھی منتقل ہو مگر کیا کروں کہ جب (ضمیر)عکس نمانہ ہواور مکدر وخراب ہو۔ آئینہ ات دانی چرا غماز نیست زانکہ زنگار از رخش ممتاز نیست کیا تجھ کو یہ معلوم ہے کہ تیرا آئینۂ دل کیوں عکس نما نہیں ہے اس لیے کہ اس کے