معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
چوں کہ گل رفت و گلستاں در گذشت نشنوی زیں پس ز بلبل سر گذشت جب پھول کا موسم جاتارہا اور باغ اجڑگیا تو اب بلبل سے عشق کے رموز و اسرار کے چہچہے نہ سنوگے۔ جملہ معشوق ست و عاشق پردۂ زندہ معشوق ست و عاشق مردۂ ہر طرف حق تعالیٰ ہی کے مظاہر جلوہ گرہیں۔ عاشقوں کا اپنا ہی وجود پردہ ہے، اگر اپنے اَنَا کو فنا کردیں تو اللہ تعالیٰ ہی کی تجلی ہر طرف نظر آئے گی ؎ گلستاں میں جاکر ہر اک گل کو دیکھا تری ہی سی رنگت تری ہی سی بو ہے اس شعر میں ترمیم کی گئی ہے جو عارفین کے مذاق کے مطابق ہے اور عینِ حقیقت ہے۔ صرف حق تعالیٰ ہی کی ذات زندہ حقیقی ہے اور باقی تمام جہان اور اہلِ جہان فانی ہیں۔ چو سلطانِ عزت علم برکشد جہاں سر بجیبِ عدم در کشد اگر ہفت دریا ست یک قطرہ نیست و گر آفتاب است یک ذرہ نیست چوں نباشد عشق را پروائے او او چو مرغے ماند بے پروائے او عشق ہی وصول الی الحق کا ذریعہ ہے کیوں کہ عشق کی وجہ سے محبوبِ حقیقی کی توجہ عاشقین پر ہوتی ہے اور یہی عنایت اور توجہ سلوک طے ہونے کااصل سبب ہے، اگر محبوبِ حقیقی کی طرف سے عنایتِ خاصہ نہ ہوتووہ مرغِ روح مثلِ بے بال وپر قابلِ افسوس حالت میں ہے۔