معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
اے عشق! تو ہماری جاہ و تکبر کی بہترین دواء ہے اور توہی ہمارے لیے افلاطون اور جالینوس ہے۔ با لبِ دمساز خود گر جفتمے ہمچو نے من گفتنیہا گفتمے اگر میں بھی اپنے یار دمساز کے لب سے ملاہوتاتومثلِ بانسری کے نالۂ دردناک میری زبان سے بھی جاری ہوتایعنی جس طرح بانسری میں تو نغماتِ درد بھرے ہیں مگر یہ نغمات نکلتے اسی وقت ہیں جب اس کے ایک سرے کو کوئی منہ میں رکھ کر بجاتا ہے، اسی طرح جب اے طالب! تواپنی روح کی بانسری کے ایک سرے کو شیخِ کامل کی روح کے میں پکڑادے گا یعنی تفویض وتسلیم کا قوی رابطہ مرشدِ کامل سے کرلے گا تو پھر تیری روح سے عجیب وغریب نالے نکلیں گے کہ خلق محوِ حیرت ہوگی، جس طرح حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ نے شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے خود کو کردیا تو روحِ شمس نے اپنا درد روحِ جلال الدین میں منتقل کردیا اور ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار مثنوی کے حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے برآمد ہوئے جو آج خلق کو مست اور بے خود کررہے ہیں۔ ہرکہ او از ہمزبانے شد جدا بے نوا شد گرچہ دارد صد نوا جو شخص اپنے ہم زبان سے ( ہم مشرب وہم مسلک سے) جدا ہوجاتاہے تو وہ بے زبان ہوجاتاہے اگرچہ سینے میں صدہا آوازیں اور مضامین رکھتاہو یعنی اسرارِ عشق بیان کرنے کے لیے سامعین کی صلاحیت لازم ہے۔ چوں کہ گل رفت و گلستاں شد خراب بوئے گل را از کہ جوئیم از گلاب جب پھول کا موسم جاتارہااور باغ تباہ ہوگیا توہم پھول کی خوشبو کس سے ڈھونڈیں؟ عرقِ گلاب سے؟