معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
ماسوی اللہ سے تعلقات نہ رکھے جائیں اور حرصِ دنیا (حُبِّ مال و حُبِّ جاہ) سے خلاصی حاصل کرلو ؎ گر بر بیزی بحر را در کوزۂ چند گنجد قسمتِ یکروزۂ زندگی کا سامان اتنا کروجس سے ضرورتیں پوری ہوتی رہیں اور ضرورت کی تعریف یہ ہے کہ جس کے بغیر ضرر ہو یعنی تن ڈھاکنے کو کپڑا اور پالنے کو۲ ؍روٹیاں ملتی رہیں اس سے زیادہ حرص فضول ہے۔ کوزۂ چشمِ حریصاں پُر نشد تا صدف قانع نشد پُر دُر نشد حریص لوگوں کی بھوکی آنکھ کا کوزہ کبھی پُر نہ ہوگا۔ جب تک سیپ نے قناعت نہ کی موتیوں سے مالامال نہ ہوا۔ یعنی سیپ ایک قطرہ لیتاہے اور منہ بند کرلیتاہے اور اس قناعت کی برکت سے وہی قطرہ موتی بنتاہے۔ اگر وہ حریص ہوتا اور ایک قطرے پر منہ بند نہ کرتاتو موتی سے محروم رہتا۔ ہرکرا جامہ ز عشقے چاک شد او زِ حرص و عیبِ کلّی پاک شد عشقِ حقیقی ہی تہذیبِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کے لیے بہترین ذریعہ ہے کہ اس کی برکت سے انسان حرص اور جملہ عیوب سے پاک ہوجاتاہے۔ شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما اے طبیبِ جملہ علتہائے ما اے عشق! تو بہت ہی اچھی بیماری ہے کہ جسے لگ جاتی ہے اس کے لیے تو اس کی جملہ بیماریوں کی طبیب بن جاتی ہے۔ اے دوائے نخوت و ناموسِ ما اے تو افلاطون و جالینوسِ ما