معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
مثال نمبر۲)اگر ہزاروں چوہے اپنے اپنے بلوں سے کسی لاغر و نہایت درجہ بیمار بلی پر یک بیک حملہ کربیٹھیں تو بتقاضائے عقل ان کو فتح ہونی چاہیے۔ ایک دوچوہے اس کی گردن پکڑلیں، دوایک اس کی آنکھیں نکالیں، دو ایک اس کے کان اپنے دانتوں سے چیر ڈالیں اور دوایک اس کے پہلو میں سوراخ کرکے اندرگھس جائیں اور اندرون جسم کے تمام اعضاء کو چبا ڈالیں۔ لیکن مشاہدہ اس کے برخلاف ہے۔ ایک دفعہ جہاں اس لاغر و نحیف بلی نے میاؤں کیا ان ہزار چوہوں کی اکثریت غلبۂ ہیبت وخوف سے یک بیک مفرور ہوجاتی ہے۔ اس میاؤں کو سنتے ہی ان کے کانوں میں اپنی مغلوبیتِ سابقہ کی خوفناک ضربیں گونج اٹھتی ہیں اور اس کے دانتوں اور پنجوں کی حرکاتِ جابرانہ کا تصوّر ان کو راہِ فرار اختیار کرنے پرمجبور کردیتاہے اس کی وجہ یہی ہے کہ چوہوں کے سینوں میں جو قلوب ہیں اور بلّی کے سینے میں جودل ہے اس میں فرق ہے، بلی کے دل میں جو جمعیت اور ہمّت ہے وہ چوہوں کے قلوب میں نہیں۔ پس اتنی بڑی جماعتِ موشاں کا ایک بلّی کے سامنے حواس باختہ اور ہوش رفتہ ہوجانا اس امر کی دلیل ہے کہ بلّی کی جان میں جمعیّت ہے ورنہ ظاہری قوت کے لحاظ سے بلّی کی خلاصی ناممکن ہے، اسی جمعیتِ قلبی کا فقدان ہی سبب ہے کہ چوہوں کی تعداد اگر ایک لاکھ بھی ہوتب بھی ایک نحیف ونزاربلّی کودیکھ کرسب مفرورہوجاتے ہیں ، معلوم ہواکہ تعداد کوئی چیز نہیں،جمعیت اور ہمت اصل ہے۔ مثال نمبر۳)بھیڑ اور بکریاں لاکھوں کی تعداد میں ہوں لیکن قصاب کے ایک چھرے کے سامنے اتنی بڑی اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں۔ مثال نمبر۴)افکار اور حواس کی کثرت پرنیندیک بیک طاری ہوکرسب کوفنا کردیتی ہے۔ مثال نمبر۵)جنگل میں لاکھوں بڑے بڑے سینگوں والے جانوروں پر ایک شیرکتنی دلیری سے حملہ کرتاہے اور سب پر تنہا غالب آجاتاہے اور جس جانور کو چاہتا ہے اپنی خوراک بنالیتاہے۔