معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بند کرلیا اور کسی کی تاب نہ ہوئی کہ مقابلے کے لیے ان کے سامنے آوے۔ بادشاہ نے وزیر سے مشورہ کیا کہ اس وقت کیا تدبیرکرنی چاہیے۔ وزیر نے کہا کہ تدبیر صرف یہی ہے کہ آپ جنگ کے تمام منصوبوں اور ارادوں کو ختم کرکے اس باہمّت شخص کے سامنے شمشیراور کفن لے کر حاضر ہوجائیے اور ہتھیار ڈال دیجیے۔ بادشاہ نے کہا کہ آخر وہ تنہا ایک شخص ہی تو ہے پھر ایسی رائے مجھے کیوں دی جاتی ہے؟وزیر نے کہا کہ آپ اس شخص کی تنہائی کوبے وقعتی کی نگاہ سے نہ دیکھیے، ذرا آنکھیں کھولیے اور قلعے کودیکھیے کہ سیماب(پارہ) کی طرح لرزاں ہے اور اہلِ قلعہ کو دیکھیے کہ بھیڑوں کی طرح گردنیں نیچے کیے کیسے سہمے ہوئے ہیں۔ یہ شخص اگرچہ تنہا ہے لیکن اس کے سینے میں جودل ہے وہ عام انسانوں جیسا نہیں ہے، اس کی عالی ہمّتی دیکھیے کہ اتنی بڑی مسلّح اکثریت کے سامنے تنہا شمشیرِبرہنہ لیے کس ثابت قدمی اور فاتحانہ انداز سے اعلانِ جنگ کررہاہے، ایسا معلوم ہوتاہے کہ مشرق ومغرب کی تمام فوجیں اس کے ساتھ ہیں، وہ تنہا بمنزلہ لاکھوں انسانوں کے ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ قلعے سے جو سپاہی بھی اس کے مقابلے کے لیے بھیجاجاتاہے وہ اس کے گھوڑے کی ٹاپ کے نیچے پڑا نظر آتاہے۔ جب میں نے ایسی عظیم الشان انفرادیّت دیکھ لی توپھر اے بادشاہ!آپ کی اس اکثریت سے کچھ بھی نہ بن پڑے گا،آپ کثرتِ اعداد کا اعتبار نہ کریں، اصل چیز جمعیتِ قلب ہے اور یہ قوت اس شخص کے قلب میں بے پناہ ہے اور یہ نعمت بعد مجاہداتِ حصول تعلق مع اللہ کی برکت سے عطا ہوتی ہے اور اس عطائے حق کو تم اس حالتِ کفر میں ہرگز حاصل نہیں کرسکتے۔ لہٰذا فی الحال تمہارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس جانباز مردِ مؤمن کے سامنے ہتھیارڈال دواور قلعے کادروازہ کھول دو۔ کیوں کہ یہ اکثریت بالکل بے کار ہے۔ آگے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ بعض اقلیت کے سامنے اکثریت کے تعطّل اور ضعف کوچند مثالوں سے سمجھاتے ہیں: مثال نمبر۱ )بے شمار ستارے روشن ہوتے ہیں لیکن ایک خورشیدعالم تاب کا ظہوریعنی طلوع سب کو مانندکالعدم کردیتاہے۔