معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
در نیا بد حالِ پختہ ہیچ خام پس سخن کو تاہ باید و السلام کوئی ناقص کسی کامل کے مقام کو سمجھ نہیں سکتاپس قصہ مختصرکرتاہوں اورہمارا سلام۔ بادہ در جوشش گدائے جوشِ ماست چرخ در گردش اسیرِ ہوش ماست یہ فانی شراب ہماری مستی لازوال کی گداہے اور آسمان باوجود اپنی عظیم اور وسیع جسامت کے ہمارے ہوش کی وسعت کا قیدی ہے ؎ عجب کیا گر مجھے عالم بایں وسعت بھی زنداں تھا میں وحشی بھی تو وہ ہوں لامکاں جس کا بیاباں تھا (مجذوب رحمۃ اللہ علیہ) بادہ از مامست نے کہ ما ازو قالب از ماہست نے کہ ما ازُو خود بادہ ہم سے اپنی مستی حاصل کرتی ہے نہ کہ ہم اس سے مست ہوتے ہیں یعنی عشقِ مجازی کی کیفیات فی نفسہٖ اپنا کچھ وجود نہیں رکھتی ہیں۔ لہٰذا جب روح نکل جاتی ہے تو وہ عشق اور کیف بھی فنا ہوجاتاہے کیوں کہ یہ اجسام دراصل اپنے وجود میں ارواح کے محتاج ہیں۔پس قالب ہم سے ہے نہ کہ ہم قالب سے ہیں۔ برسماعِ راست ہر کس چیر نیست طُعمۂ ہر مر غکے انجیر نیست حق بات کو سننے کے لیے ہر شخص نہیں ہے اور ہر حقیر چڑیا کی غذا انجیرنہیں ہے۔ بند بگسل باش آزاد اے پسر چند باشی بندِ سیمِ و بندِ زر قید کو توڑدے اور آزاد ہوجا اے پسر! کب تک سونے چاندی کا غم کھاتارہے گا یعنی