معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
در غمِ ما روزہا بیگاہ شد روزہا با سوزہا ہمراہ شد ہمارے غم سے ہمارے ایام بے کیف ہوگئے اور ہمارے ایامِ زندگانی سوز وغم کے ہمراہ ہوگئے یعنی مجاہداتِ نفس سے یہ ہورہاہے ؎ بلبل کو دیا نالہ تو پروانہ کو جلنا غم ہم کو دیا ایسا جو مشکل نظر آیا روزہا گر رفت گو ر و باک نیست تو بماں اے آنکہ چوں تو پاک نیست اوپر کے شعر میں علاجِ عجب و خود بینی کے لیے مولانانے اپنی بے کیفی کا اظہارکیا اور اب اس شعر میں شکرِ حق ادا کررہے ہیں کہ مبادا یہ تواضع حدِّ ناشکری تک مفضی (بڑھ جانا) نہ ہوجاوے،چناں چہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ ایامِ کیف و مستی اور بے خودی چلے گئے تو کیا غم اے خدائے پاک! تو ہمارے دل میں رہے کہ مثل تیرے کوئی شے پاک نہیں۔ اور تمام ماسویٰ مع ان ایامِ پُر کیف کے سب فانی اور متغیر اور حادث ہے۔ پس حالاتِ قبض و بسط پر نظر رکھنے کے بجائے سالک کو اے خدا! آپ کے تعلق و معیتِ خاصہ پر نظر رکھنی چاہیے اور ہر حالت پر آپ کی رضا کے لیے سرِ تسلیم خم کرنا چاہیے اسی مضمون کی تشریح ان اشعار میں موجود ہے ؎ بے کیفی میں بھی ہم نے تو اک کیفِ مسلسل دیکھا ہے جس حال میں بھی وہ رکھتے ہیں اس حال کو اکمل دکھا ہے جس راہ کو ہم تجویز کریں اس راہ کو اثقل دیکھا ہے جس راہ سے وہ لے چلتے ہیں اس راہ کو اسہل دیکھا ہے (مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ)