معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
دو دہاں داریم گویا ہمچو نے یک دہاں پنہاں ست در لبہائے وے اور مثلِ بانسری کے دومنہ رکھتے ہیں: ایک منہ تو اس فیاضِ مطلق سے واصل ہے جس سے اسرارِ غیب القا ہوتے ہیں۔ یک دہاں نالاں شدہ سوئے سما ہائے و ہوئے در فگندہ در سما اور دوسرا منہ اے لوگو! تمہاری طرف نالہ اورآہ و فغاں سے ہلچل مچاکر تمہاری روحوں سے غفلت کے پردے چاک کررہاہے ؎ لیک داند ہر کہ او را منظر ست کایں فغانِ ایں سرے ہم زاں سرست لیکن اہلِ نظر واہلِ بصیرت عارفین کے مضامین کو سن کر سمجھ جاتے ہیں کہ ان کی روح کو یہ مضامین عالمِ غیب سے القا ہورہے ہیں۔ محرمِ ایں ہوش جز بے ہوش نیست مر زباں را مشتری جز گوش نیست اس رازِ محبت کا محرم وہی ہوتاہے جو ماسوائے حق سے اپنے کو بے خبر اور بے ہوش کرتاہے جس طرح سے کہ زبان کی بات کا صرف کان ہی خریدار ہے ؎ یا تو خرد کو ہوش کو مستی و بے خودی سکھا یا نہ کسی کو ساتھ لے اس کے حریمِ ناز میں گر نبودے نالۂ نے را ثمر نے جہاں را پُر نہ کردے از شکر اگر عارفین کے نالوں میں اثرنہ ہوتاتوکیوں کر ان نالوں سے یہ ثمر ظاہر ہوتے کہ ان کے فیوض وبرکات سے لاکھوں بندگانِ خدا اولیاء اللہ ہوتے رہتے ہیں۔