معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہرشخص نے اپنے گمان کے مطابق مجھ سے دوستی کی اور کسی نے میرے سینے کے رازِ مخفی (دردِ محبتِ الٰہیہ) کو نہ ڈھونڈا۔ سرِّ من از نالۂ من دور نیست لیک چشم و گوش را آں نور نیست حق تعالیٰ کی محبت کا جورازمیری روح میں مخفی ہے اس کے انوار وآثار میرے نالوں سے محسوس ہوسکتے ہیں لیکن سامعین کی آنکھیں اور کان اس نور کے ادراک سے قاصرہیں۔ تن زجاں و جاں زِ تن مستور نیست لیک کس را دید جاں دستور نیست لیکن یہ امر کہ اسرارِ عشقِ حق سے میرے احباب کیوں بے خبر ہیں کچھ قابلِ تعجب نہیں کیوں کہ جسم اور جان کس قدر ایک دوسرے سے قریب ہیں مگر جان کی معرفت سے جسم کے آگاہ ہونے کا دستور نہیں ہے۔ نے حریفے ہر کہ از یارے برید پردہایش پردہائے ما درید روحِ عارفِ عاشق کا نالۂ غم ناک ہر عاشقِ صادق کا غم خوارہے اور اس کی دردناک آواز نے طالبین کے دلوں سے حجاباتِ دنیا ومافیہا اٹھادیے۔ نے حدیثِ راہ پُر خوں می کند قصہ ہائے عشق مجنوں می کند جانِ عارفِ عاشق سلوک کے نہایت پُر خطراور پُرخون راستہ کا فسانہ سناتی ہے ایسے عاشقانِ حق کے قصے سناتی ہے جن کے دل میں سوائے محبوبِ حقیقی کے کچھ اور نہ تھا یعنی اپنے رب کے مجنون تھے اور جن کا مذاق یہ تھا ؎ بن کے دیوانہ کریں گے خلق کو دیوانہ ہم برسرِ منبر سنائیں گے ترا افسانہ ہم