معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
صبح کا وقت تھا، جب آفتاب بلند ہوگیا اور اس کی شعاعوں کی تمازت نے اس اژدہے کو گرم کیاتواس کے جسم سے افسردگی اور ٹھنڈک کے آثارختم ہونے شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ اس میں زندگی کے آثار دکھائی دینے لگے۔ آفتابے گرم سیرش گرم کرد رفت از اعضائے او اخلاطِ سرد آفتاب کی گرمی نے اس میں زندگی کے آثارنمایاں کردیے اور اس کے اعضاء سے ٹھنڈک ختم ہوگئی۔ مردہ بود و زندہ گشت او از شگفت اژ دہا بر خویش جنبیدن گرفت اژدہا مردہ تھازندہ ہوگیااور اس نے حرکت کرنا شروع کیا۔ خلق را از جنبشِ آں مردہ مار گشت شاں آں یک تحیر صد ہزار خلق اس مردہ اژدہے کی حرکت سے حیرت میں ہوگئی اور اس کی یہ حرکت باعثِ صد ہزار حیرت ہوئی ؎ با تحیّر نعر ہا انگیختند جملگاں از جنبشش بگریختند تماشائیوں نے حیرت کے ساتھ نعرے بلند کیے اور سب کے سب راہِ فرار اختیار کرنے لگے۔ جب وہ اژدہا مثلِ شیرِ غرّاں حرکت کرنے لگا تو بہت سی مخلوق بھاگتے وقت ایک دوسرے سے ٹکراکر زخمی ہوگئی اور وہ سانپ والابھی وہیں خوف سے دم بخود ہوگیا۔ نفس اژدہاست او کے مردہ است از غمِ بے آلتی افسردہ است اب مولانا اس قصے کے بعدارشادی مضمون بیان فرماتے ہیں کہ اے سالکین! خوب