معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
سمجھ لوکہ نفس گناہوں کے سامان نہ ہونے سے افسردہ اور بے جان معلوم ہوتاہے لیکن خلوت میں کسی اجنبیہ یا امرد کے پاس اس کا کیا حال ہوتاہے ۔ گر بیابد آلتِ فرعون او کہ بامرِا وہمی رفت آب جو اگر نفس فرعون جیساسامان واسبابِ عیش و طاقت پاجاوے۔ آنگہٖ او بنیادِ فرعونی کند راہِ صد موسیٰ و صدہا روں زند اس وقت ہمارا نفس بھی فرعونی بنیادپر سرکشی اورارتکابِ معاصی شروع کردے گا اورسینکڑوں داعین الی الحق کے ساتھ جنگ و گستاخی کرنے پر تُل کھڑا ہوگا۔ فائدہ : اس حکایت میں سالکین کے لیے نہایت ہی اہم سبق مولانانے بیان فرمایاہے کہ نفس پر کبھی اعتماد نہ کرو کہ وہ اصل فطرت کے اعتبار سے امّارہ بالسوء ہے۔ پس شیخ کی صحبت اور طویل عمر مجاہدات کی برکت سے اگر نفس کچھ نیک معلوم ہونے لگے پھر بھی اس سے مطمئن ہوکر بے فکرنہ ہونا یعنی احتیاط میں کوتاہی نہ کرنا جیساکہ بعض بے وقوف جاہل صوفیوں نے جب ایک عرصۂ دراز تک اپنے نفس کو اذکار واشغال کا پابند دیکھا تو مطمئن اور بے فکر ہوگئے اور اجنبیہ عورتوں اور امردوں سے اختلاط کرنے لگے اور سمجھے کہ اب ہمارے نفس کو گناہ کا تقاضامغلوب نہ کرسکے گا لہٰذاکیوں نہ ان کو پاک نظر سے دیکھ کر کچھ نشاط حاصل کرلیا جاوے مگر ان کی پھر کیا حالت ہوئی کہ بری طرح ذلیل ہوئے، نفس جوافسردہ تھا اسبابِ معصیت کو دیکھ کر زندہ ہونے لگا اور جس نظر کو پاک سمجھا تھا وہی نظر ناپاک اورحرام ثابت ہوئی۔ بالآخر نفس کے سانپ نے ڈس لیا اور راہِ حق میں مردود اور ذلیل ہوگئے۔ اسی وجہ سے ہمارے اکابرنے فرمایاہے کہ کتنے ہی پرانی متقی ہوجاؤمگرنفس سے مرتے دم تک بے فکر نہ ہونا ۔ حضرت مجذوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎