معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اوہمی مردہ گماں بردش و لیک زندہ بود و او نہ دیدش نیک نیک اس سانپ والے نے اس کو مردہ گمان کیا اور وہ زندہ تھا مگر سردی سے بے جان ہورہاتھالیکن اس کی خبر اسے نہ تھی۔ کاژدہائے مردۂ آوردہ ام در شکارش من جگر ہا خور دہ ام سانپ والے نے تماشائیوں سے کہا کہ میں یہ مردہ اژدہالایاہوں، اس کے شکارمیں مجھے بڑی جانفشانی اور خون پسینہ بہاناپڑاہے ۔ او ز سرماہا و برف افسردہ بود زندہ بود و شکلِ مردہ می نمود وہ اژدہاموسمِ سرما اور برف سے بے جان ساٹھٹھراہواتھا، در حقیقت زندہ تھا لیکن مردہ معلوم ہورہاتھا۔ تابہ بغداد آمد آں ہنگامہ جو تانہد ہنگامۂ بر چار سو یہاں تک کہ وہ اس اژدہے کو بغدادتک گھسیٹ لایااور اپنی تشہیر اور کمالات کے خوب چرچے کررہاتھا اور خلقِ کثیر جمع ہوگئی، اطراف وجوانب میں خبر گرم ہوئی کہ ؎ مار گیرے اژدہا آور دہ است بو العجب نادر شکارے کردہ است مارگیر(سپیرا) ایک اژدہا لایاہے بہت ہی نادر اور قابلِ حیرت اس نے شکار کیاہے ؎ جمع آمد صد ہزاراں خام ریش صیدِ او شد ہر یک آنجا از خریش ہزاروں ناتجربہ کار اور بے عقل لوگ جمع ہوگئے اور وہ سب اس سانپ والے کے چکر میں پھنس رہے تھے۔