معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
زہرہ ہو یاعطارد یا شہابِ ثاقب یہ کب آفتاب کے سامنے اپناوجود پیش کرسکتے ہیں ۔ شاہ اس بات سے خوش ہوا اور کہا ؎ اے ایاز از تو غلامی نور یافت نورت از پستی سوئے گردوں شتافت اے ایاز! تیری عالی حوصلگی سے غلامی اور بندگی کو روشنی عطاہوئی اور تیرا نور پستی سے فلک کی طرف تیزرفتار ہے۔ حسرتِ آزادگاں شد بندگی بندگی را چوں تو داری زندگی اے ایاز! تیری غلامی نے وہ مقام حاصل کیاہے جس پر آزادی بھی رشک و حسرت کررہی ہے کیوں کہ تونے بندگی کا حق اداکرکے حقیقی زندگی حاصل کرلی ہے۔ایاز نے کہا ؎ گفت آں دانم عطائے تست ایں ورنہ من آں چار قم و آں پوستیں یہ سب عالی حوصلگی آپ ہی کی عطااورآپ ہی کی صحبت کا فیضان ہے ورنہ میں درحقیقت وہی گھٹیا درجہ کا غلام ہوں جو کہ ابتدا میں پھٹی پرانی گدڑی اور پوستین میں حاضر ہواتھا ۔ چارقت نطفہ است و خونت پوستیں باقی اے خواجہ عطائے اوست بیں اے مخاطب! تیری گدڑی نطفہ اور تیری پوستین خون ِ حیض ہے باقی سب کچھ حق تعالیٰ کی طرف سے عطاہے۔ فائدہ : اس حکایت میں حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فنائیت کی تعلیم دی ہے کہ جس طرح ایازعطائے شاہی کے تمام انعامات کے باوجوداپنے کو عجب وتکبر سے بچانے کے لیے ہرروزاپنی پرانی گدڑی او پوستین کودیکھتااوراپنے کو نصیحت کرتااور کہتاکہ اے ایاز! تیری یہی اصل حقیقت تھی ، شاہ کے تقرب سے ناز نہ کرنا۔ اسی طرح سالکین وطالبینِ حق