معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کوچاہیے کہ اپنی حقیقت پر ہمیشہ نظر رکھیں۔ جیساکہ حق تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ کیا انسان کو یہ نہیں معلوم کہ ہم نے اس کونطفے سے پیداکیاہے۔ انسان کی اصل تخلیق باپ کے نطفے اور ماں کے خونِ حیض سے ہوئی ہے اس کے علاوہ انسان کوظاہری اورباطنی جوکچھ نعمتیں عطاہوئی ہیں وہ سب حق تعالیٰ کی عطاہیں۔ اللہ تعالیٰ کتنے ہی اعلیٰ مدارج کسی کو عطافرمادیں مگراپنی بنیادی حقیقت نطفۂ پدراور خونِ حیضِ مادر کا مراقبہ عجب اور تکبر سے حفاظت کا وقایہ اور ذریعہ ہے۔ یعنی انسان کو بار بار یہ دھیان دل میں رکھنا چاہیے کہ ماں کے پیٹ میں جب انسان کی تخلیق ہوتی ہے تو باپ کے نطفے اور ماں کے خونِ حیض ہی سے اس کے اعضاء بنتے ہیں پھران اعضاء میں بینائی، شنوائی، عقل و فہم کے خزانے کون رکھتاہے ؎ جان و گوش و چشم و ہوش پاؤ دست جملہ از دُر ہائے احسانت پرست ایک بزرگ سڑک سے گزررہے تھے کہ ایک متکبر کے بدن کو ان کے جسم سے کچھ دھکا لگ گیا کیوں کہ زیادہ عمر کے سبب بینائی کمزور ہوگئی تھی۔ اس متکبرنے اکڑکرکہا کہ او اندھے !تجھے سوجھائی نہیں دیتا، تونہیں جانتاکہ میں کون ہوں؟اُن بزرگ نے ارشاد فرمایاکہ میں خوب جانتاہوں کہ تو کون ہے؟اگر تو کہے تو میں تجھے بھی بتاسکتاہوں۔ اس نے کہا: بتائیے۔ ارشاد فرمایاکہ ہرزندگی تین زمانے پر مشتمل ہوتی ہے: ماضی۔ حال۔ مستقبل۔ میں تیرے تینوں زمانے بتائے دیتاہوں۔ماضی میں تو باپ کا ناپاک نطفہ اور ماں کا خونِ حیض تھا۔حال میں تیرے پیٹ کے اندرپائخانہ اور پیشاب بھراہواہےاور مستقبل میں تو قبرستان میں سڑی ہوئی لاش ہوگا۔ عجب وتکبر بے وقوفوں کو بہت ہوتاہے ورنہ ذرابھی عقل سے کام لیاجاوے تو سمجھ میں آجاوے گا کہ انسان کو تکبرکبھی زیبانہیں۔ حدیثِ قدسی میں ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: بڑائی میری چادر ہے جو اس میں گھسے گا میں اس کی گردن توڑدوں گا۔