معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
بالآخر ناامیدی سے اپنے ہاتھ اور لب کاٹ رہے تھے اور اپنے سروں پرعورتوں کی طرح ہاتھ رکھے ہوئے شرمسار تھے۔ شاہ کے سامنے سب حاضرہوئے اور کہنے لگے کہ اب حضورجوسزابھی دیں ہم اس کے مستحق ہیں لیکن اگر آپ ہم کومعاف کردیں توآپ شاہِ کرم ہیں۔ شاہ نے کہا:جوفیصلہ ایازکریں گے وہی فیصلہ ہمارا ہوگا کیوں کہ تم لوگوں نے ایازکی عزت وناموس کوداغدارکرنے کی کوشش کی ہے لہٰذا میں اس میں کچھ فیصلہ نہ کروں گا اور شاہ نے کہا۔ کن میانِ مجرماں حکم اے ایاز اے ایازِ پاک با صد احتراز اے ایاز! تم ان مجرمین پرحکم نافذکرو،اے ایاز!تم اس الزام تراشی سے بالکلیہ پاک وصاف اور محترزتھے۔ ز امتحاں شرمندہ خلقے بے شمار ز امتحا نہا جملہ از تو شرمسار اے ایاز!تمہارے امتحان سے خلقِ کثیرشرمندہ اور نادم ہے، اب ایاز کی سعادت اور اس کی فنائیت اور آدابِ عاشقانہ سنیے ۔ گفت اے شہ جملگی فرماں تر ا ست باوجودِ آفتاب اختر فنا ست ایاز نے کہا:اے شاہ! جملہ حکمرانی آپ کو زیباہے،آپ کی نوازش ہے جو ایازکویہ عزت بخشی گئی ورنہ غلام تو غلام ہی ہے۔ آفتاب کے سامنے ستارہ کب اپنا وجود رکھتاہے یعنی کالعدم ہوتاہے ؎ زہرہ کہ بود یا عطارد یا شہاب کہ بروں آید بہ پیشِ آفتاب