معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
شاہ کو تو پہلے ہی سے ایازکی مخلصانہ محبت پر مکمل اعتماد تھا لیکن شاہ ان عمائد سے مذاق کررہاتھا۔ شاہ را بروے نبودہ ایں گماں تسخرے می کرد بہرِ امتحاں شاہ کو ایاز پربدگمانی نہ تھی اور یہ معاملہ امتحان کے لیے حاسدین کے ساتھ بطورِ تمسخرتھا۔ از ایاز ایں خود محال ست و بعید کو یکے دریاست و قعرش نا پدید ایاز سے یہ فعل محال اور بعید تھا۔ کیوں کہ وہ بحرِ وفا ناپیدکنارتھا۔ شاہِ شاہان ست بلکہ شاہ ساز وز برائے چشمِ بد نامش ایاز ایاز شاہوں کا شاہ بلکہ شاہ ساز ہے ا ور صرف چشمِ بد سے حفاظت کے لیے نام ایاز رکھاتھا۔ ۴۔ شاہ می دانست خود پاکیے او بہرِ ایشاں کرد او آں جستجو شاہ محمود اس کی پاکدامنی سے باخبرتھا،صرف حاسدین کی اصلاح کے لیے یہ تلاشی کی تھی۔ آخرآدھی رات کوحجرہ کھولاگیالیکن اراکینِ سلطنت نے جب وہاں کچھ نہ پایا تو کہنے لگے کہ زمین کے اندر دفینہ ہوگالہٰذا حجرے کے اندر کھدائی کی گئی پھر بھی کچھ نہ نکلا۔ جملہ در حیرت کہ چہ عذر آورند تا ازیں گرداب جاں بیروں روند سب لوگ سخت تعجب میں ہوئے کہ اب شاہ سے کیا معذرت کریں اور اس الزام تراشی کی پاداش سے اپنی جان کو کس طرح چھڑائیں۔ عاقبت نومیددست و لب گزاں دستہا بر سرزناں ہمچو زنان