معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
گفت خاکت بر سر اے پُرباد مشک کہ لبِ ناں پیشِ تو بہتر ز اشک اس نے کہا کہ خاک پڑے تیرے سر پر اے سراپا ہوا سے بھرے ہوئے مشک! کہ روٹی کا ٹکڑا تیرے نزدیک بہتر ہے آنسو سے۔ اشک خون ست و بغم آبے شدہ می نیرزد خوں بخاک اے بیہدہ ارے ظالم! آنسو تو خون ہے جو غم اور صدمہ سے پانی بن جاتاہے ۔ پس اے بے وقوف! خون کی قیمت خاک کے برابر کیسے ہوسکتی ہے۔ روٹی کو خاک سے تعبیر کیا کہ گندم زمین ہی سے تو پیداہوتاہے۔ من غلامِ آنکہ نفر و شد و جود جزبآں سلطانِ با افضال وجود اب مولانا یہاں سے ارشادی مضمون بیان فرماتے ہیں کہ میں ایسے عالی حوصلہ شیخ (مرشد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ) کا غلام ہوں جوکہ اپنے وجودکودنیا کی بڑی سے بڑی دولت اور سلطنت کے عوض بھی نہیں فروخت کرسکتا۔ سوائے مولائے حقیقی کے عشق کے بدلے یعنی حق تعالیٰ ہی کی محبت سے میرا مرشدِ پاک اپنے جسم و روح کا سودا کرتاہے۔ یعنی اولیائے پاک جوجانبازانِ الٰہی ہیں ان ہی کی غلامی کرنی چاہیے ورنہ اگر کسی دنیا دار کے غلام ہوگئے تو وہی حشر تمہارا بھی ہوگاجواس کتے کا ہواکہ وہ اپنے نفاق کے دو آنسو گرادے گا اورکسی کام نہ آوے گابسبب اپنی پست حوصلگی کے۔ اور حوصلے میں بلندی کیسے آسکتی ہے جب کہ صرف زمینی ہے۔ اللہ والے چوں کہ عرشی اور سماوی ہیں اس لیے رب العرش کے رابطے سے ان کے حوصلے بھی ہفت افلاک سے زیادہ بلند ہوتے ہیں۔ یہ خاص شرح حق تعالیٰ کا اس فقیر پر انعامِ خاص ہے ۔اَلْحَمْدُلِلہِ عَلیٰ ذٰلِکَ وَلَا فَخْرَ ؎ چوں بگرید آسماں گریاں شود چوں بنالد چرخ یارب خواں شود