معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نور آیا پس بجھی شہوت کی نار جیسے ہوجائے خزاں فصلِ بہار سنگدل ہوتے ہیں یہ سمین تن خود غرض اور بے وفا ہیں گل بدن سخت بدرگ بدخصال و زشت خو بالیقیں ہوتے ہیں یہ بت خوبرو گھور پر جیسے ہو کوئی سبزہ زار چشم دھوکا کھا کے ہو اس کا شکار غیرِ حق کا دل سے جب نکلے گا خار دل میں ہوگی چین و لذت کی بہار جان میں ہوگا طلوع وہ آفتاب اور حیاتِ طیبہ کا فتح باب تھا دخانِ شمع مردہ کا حجاب سخت غیرت میں تھا نورِ آفتاب آفتابا تو چو قبلہ دا میم شب پرستی و خفاشی می کنیم بے گماں ترکِ ادب باشد ز ما کفرِ نعمت باشد وفعلِ ہوا جب کہ ہو غیرِ خدا کا دل میں خار ہوگی اس پر ظلمت و کلفت کی مار ہائے کیا دیکھے گا وہ روئے بہار جو نہ ہو پابندِ ذکر و فکرِ یار عمر بھر رکھے گا ساقی تشنہ کام گر پیے گا زہرِ نظرِ بد کا جام جب کہ غیروں میں بھی ہومشغول دل ذکر و طاعت میں کہاں لگتا ہے دل دل میں تیرے ہے جو فکر ایں و آں اس لیے آتا نہیں ہے نورِ جاں ’’اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن گر بدم من سرِّ من پیدا مکن گر تو چاہے پاک ہو مجھ سا پلید فضل سے تیرے نہیں کچھ بھی بعید عشق سے تیری رہوں میں جامہ چاک دردِ دل سے لوں میں تیرا نامِ پاک جو بشر بھی سن لے میری آہ کو بس تڑپ جائے وہ تیری چاہ کو عشق سے اپنے تو دل کو طور کر نور سے اخترؔ کا دل معمور کر