معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تو مگو ما را بداں شہ بار نیست بر کریماں کارہا د شوار نیست تومایوسی سے مت کہہ کہ اس محبوبِ حقیقی تک مجھ جیسے نالائقوں کی کیسے رسائی ہوسکتی ہے کیوں کہ وہ بڑے کریم ہیں اور کریموں کے نزدیک ایسے کام دشوار نہیں ہوتے جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ جوبندہ میری طرف بالشت بھرقریب آتاہے میں اس کی طرف گزبھر قریب ہوجاتاہوں۔ غرض اس کے عشق و محبت کا دروازہ ہروقت کھلاہواہے۔ جوچا ہے د اخل ہواوراس کا تقرب حاصل کرے۔ فائدہ : مولانا فرماتے ہیں کہ یہ قصہ ہم سب لوگوں کے حسبِ حال ہے چناں چہ ہماری روح کونفس پر بادشاہ بنایاگیاہے تاکہ روح نفس سے مرضیاتِ الٰہیہ کے مطابق کام لے کرجنت کاانعام حاصل کرے مگر نفس جو روح کی کنیز ہے ،وہ لذاتِ دنیویہ پر عاشق ہے جس کے سبب روح کی اطاعت سے روگرداں ہے اور عمومًااس ماحول اور معاشرے کے اطباء ناقص ہیں جواس کے علاج پرقادرنہیں پس شیخِ کامل کی ضرورت ہے جو حسنِ تدبیرسے لذاتِ دنیویہ کونفس کی نظر میں بدصورت کردے پھرنفس کے لیے روح کی تابعداری یعنی حق تعالیٰ کی مرضیات پرچلناآسان ہوجائے گا۔