معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
جس طرح ہوا پانی کوآہستہ آہستہ جذب کرلیتی ہے اسی طرح احمق تم سے تمہاری عقل کے نور کو آہستہ آہستہ جذب کرلے گا۔ آں گریزِ عیسوی نزد بیم بود ایمن ست او آں پئے تعلیم بود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ گریز بسببِ خوف نہ تھا آپ تو فضلِ خداوندی سے معصوم اورمحفوظ تھے،آپ علیہ السلام نے یہ عمل تعلیمِ امت کے لیے کیا تھا۔ ز مہر یر او پُر کند آفاق را چہ غم آں خورشید با اشراق را اگرتمام جہان سخت سردی سے پُرنورہوجاوے توآفتابِ روشن کو اس سے کیا غم ہوسکتاہے۔ یعنی کسی فردِ واحد کی حماقت چہ معنیٰ اگر سارا جہان ہی احمقوں سے بھرجاوے توبھی خداکے رسول کوکوئی ضرر نہیں ہوسکتا ۔ فائدہ : اس حکایت سے یہ سبق ملتاہے کہ احمقوں کی صحبت سے ہمیشہ دور رہے اور قرآن کی اصطلاح میں احمق وہ ہیں جو اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ارشادات کا مذاق اڑاتے ہیں: کَمَاقَالَ اللہُ تَعَالٰی: اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ السُّفَہَآءُ وَ لٰکِنۡ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ؎ یادرکھوبےشک یہی ہیں بے وقوف لیکن اپنی بے وقوفی کا علم نہیں رکھتے۔ اسی غیرشعوری حماقت کے سبب یہ لوگ اپنے کوعقلائے زمانہ دانشوروں کی جماعت اور مفکرین وفلاسفہ کے لقب سے منسوب کرتے ہیں لیکن عقل کی بین الاقوامی تعریف انجام بینی اور نتیجہ پر نظررکھنا ہے اور اس سے یہ لوگ تہی دست ہیں یعنی انجام مابعد الموت کی انھیں مطلق پروانہیں اسی لیے ان کے بارے میں حق تعالیٰ کااشاد ہے: یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚۖ وَ ہُمۡ عَنِ الۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ غٰفِلُوۡنَ ؎ ------------------------------