معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
گفت از احمق گریزانم برو می رہانم خویش را بندم مشو فرمایاکہ احمق سے بھاگتاہوں میں۔ توجااپناکام کر میں اپنے کو احمق کی صحبت سے خلاصی دیناچاہتاہوں تومیرے بھاگنے میں خلل مت ڈال ۔ گفت آخر آں مسیحا نہ توئی کہ شود کور وکر از تو مستوی امتی نے کہا: اے خداکے رسول! آپعلیہ السلام کیا وہ مسیحا نہیں ہیں جن کی برکت سے اندھا اور بہرا شفایاب ہوجاتاہے ؟حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: گفت رنجِ احمقی قہرِ خداست رنج کوری نیست قہر آں ابتلا ست حماقت کی بیماری خدائی قہر ہے اوراندھا ہونایہ قہر نہیں ابتلاء ہے ۔ ابتلا رنجیست کاں رحم آورد احمقی رنجیست کاں زخم آورد اور ابتلا ایسی بیماری ہے جو حق تعالیٰ کی رحمت لاتی ہے اور حماقت ایسی بیماری ہے جو زخمِ قہر لاتی ہے۔ ز احمقاں بگریز چوں عیسیٰ گریخت صحبتِ احمق بسے خونہا بریخت احمقوں سے بھاگواورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح سے گریز اختیارکرو۔ احمق کی دوستی اور اس کی صحبت سے بہت خونریزیاں ہوئی ہیں یعنی دین اور دنیا دونوں ہی کا خون ہوتاہے۔ اندک اندک آب را د زدد ہوا و ایچنیں د زد دہم احمق از شما