معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہوتاہے اوردونوں عالم کے منافع سے متمتع ہوتاہے۔ مولانا رومی ر حمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ والوں کو نااہلوں سے پالا پڑتا ہے توان کو اپنے مذاق کے موافق بناناچاہتے ہیں اور جب وہ ان کے مذاق کے موافق نہیں بنتے توانھیں اذیتیں دینا شروع کردیتے ہیں، اللہ والوں کے آنسو جو زمین پر گرتے ہیں ، فرشتے ان کواپنے منہ اور پروں پر ملتے ہیں اور حق تعالیٰ شہیدوں کے خون کے برابر انہیں وزن کرتے ہیں۔حضرت آسیہ رضی اللہ عنہانے فرعون سے کہا ؎ اللہ اللہ زود بفروش و بَخَر قطرۂ دہ بحرِ پُر گوہر ببر حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: اے فرعون! اللہ اللہ! تو پس وپیش نہ کر،اپنے ایک قطرے کو فورًا دے دے تاکہ اس کے عوض میں اس رسولِ پاک سے دریا پاجاوے یعنی اپنے نفس کو جھکادے اور تکبرسے اعراض نہ کرتاکہ دریائے قربِ حق سے تومشرف ہوجاوے۔ اللہ اللہ ہیچ تاخیرے مکن کہ ز بحرِ لطف آمد ایں سخن ایسی دولتِ عظمیٰ کس قطرے کو ملتی ہے کہ اسے خود سمندر طلب کرے، یہ تجھ پر نہایت ہی شفقت ہے کہ تجھے بلارہاہے، توکیوں دیرکرتاہے، جلداپنے کوان کے ہاتھوں پرفروخت کردے کیوں کہ دریائے لطف کی طرف تجھے دعوت دی جارہی ہے۔ اللہ اللہ زود بشتاب و بجو چوں کہ بحرِ رحمت ست و نیست جو ارے! جلدی دوڑ اور اس دریا کو طلب کرکیوں کہ وہ رحمت کا سمندر ہے،کوئی معمولی ندی نہیں ہے۔ اللہ اللہ گوئے شو بےدست و پا تا شود چو گانِ موسیٰ پا ترا