معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
فرعون گھرگیا اور اپنی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہاسے یہ ماجرا بیان کیا، انہوں نے کہا ارے! اس وعدے پرجان قربان کردے۔ بس عنایتہاست متنِ ایں مقال زود دریاب اے شہِ نیکو خیال یہ گفتگو بہت سی عنایات کی شرح ہے اور وہ عنایات اس کے واسطے بمنزلہ متن کے ہیں پس تو ان کوجلدی سے حاصل کرلے اورہرگز مت چھوڑ۔ وقت کشت آمد زہے پرسود کشت ایں بگفت و گریہ کرد و گرم گشت کھیتی تیار ہے اور نہایت مفید ہے، اب تک جو وقت گزرا ہے سب بے سود گزرا،یہ کہااور زار زار رونے لگیں اور ان کو ایک جوش آگیا اور کہا: تجھے مبارک ہو، اے گنجے! آفتاب تیرا تاج ہوگیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تیری برائیوں کی پردہ پوشی کی اور تجھے دولتِ باطنی دینا چاہتے ہیں، گنجے کاعیب تومعمولی ٹوپی چھپاسکتی ہے مگر تیرے عیوب کو توحق تعالیٰ کی رحمت کاتاج چھپاناچاہتاہے۔ میرا مشورہ تویہ ہے کہ اے فرعون! تومشورہ نہ کر۔ تجھے تواسی مجلس میں فورًا اس دعوت کو خوشی خوشی قبول کرلینا چاہیے تھا۔ یہ بات جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پیش کی ہے یہ ایسی ویسی بات تونہ تھی جس میں تو مشورہ ڈھونڈتاہے،یہ توایسی بات تھی کہ سورج جیسی رفیع المرتبۃ مخلوق کے کان میں پڑتی تو سرکے بل اس کو قبول کرنے کے لیے آسمان سے زمین پرآجاتا۔ تجھے معلوم ہے کہ یہ کیا وعدہ ہے اور کیا عطاہے۔ اے فرعون! یہ رحمت تجھ پرخداکی ایسی ہے جیسے ابلیس پر رحمت ہونے لگے۔ یہ حق تعالیٰ کا معمولی کرم نہیں کہ تجھ جیسے سرکش اورظالم کویاد فرمارہے ہیں۔ ارے!مجھے تویہ تعجب ہے کہ اس کرم کودیکھ کرخوشی سے تیرا پتّہ کیوں نہیں پھٹ گیا اور وہ برقرارکیسے رہا۔ اگرتیرا پتّہ خوشی سے پھٹ جاتا تو دونوں جہان سے تجھے حصہ مل جاتا۔ دنیا میں نیک نامی اور آخرت میں نجات عطا ہوتی۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کاپتّہ خداتعالیٰ کی راہ میں غم یا خوشی سے پھٹ جاوے وہ شہید