معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
ہے وہ رشکِ ہفت اقلیم ہوتی ہے۔ خواہشات کے ابرکوپھاڑنے کے بعدہی ماہتابِ حقیقی کا نورِ تاباں مست کردیتاہے۔ ۲)دوسری نعمت یہ کہ اے فرعون! جس طرح ایک کیڑے کوہراپتا اپنے اندر مشغول کرکے انگور سے محروم کرتاہے اسی طرح یہ دنیائے حقیر تجھے اپنے اندر مشغول کرکے مولائے حقیقی سے محروم کیے ہوئے ہے۔ آدمی کیڑے کی طرح لذائذِ جسمانیہ میں مصروف ہوتاہے لیکن جب حق تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوجاتاہے تو وہ متنبہ ہوکر ان کو چھوڑدیتاہے اور مشغول بحق ہوجاتاہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اس کے رگ و ریشہ میں ذکرِ حق سماجاتا ہے اور وہ متخلق باخلاق اللہ ہوجاتاہے۔ ۳)تیسری نعمت تجھے یہ ملے گی کہ ابھی توایک ملک تجھے عطاہے اوراسلام کے بعد تجھے دوملک عطاہوں گے،یہ ملک توتجھے خدا تعالیٰ کے ساتھ بغاوت کرنے کی حالت میں عطاہواہے توپھراطاعت کی حالت میں کیا کچھ عطاہوگاجس کے فضل نے تجھے تیرے ظلم کی حالت میں اس قدر دیاہے تو اس کی عنایت وفاکی حالت میں کس درجہ ہوگی۔ ۴)چوتھی نعمت یہ ملے گی کہ توجوان رہے گااور تیرے بال ہمیشہ کالے رہیں گے اور یہ نعمتیں یعنی جوانی اور بالوں کا ہمیشہ کالارہنا وغیرہ ہمارے نزدیک بہت حقیرہیں مگر میراپالا ایک نادان بچے سے ہے اور بچوں کویہی وعدہ پسند آتاہے کہ اگر تو مکتب جاوے گاتوتجھے اخروٹ دوں گا حالاں کہ علم کی نعمت کے سامنے ایک اخروٹ کی کیا حیثیت ہے۔ ان وعدوں کوسن کر فرعون کا دل کچھ کچھ اسلام کی طرف مائل ہوا اور اس نے کہا : اچھا میں اپنی اہلیہ سے مشورہ کرلوں، اس کے بعد وہ گھر گیا اور حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔حضرت آسیہ رضی اللہ عنہانے جو مشورہ دیا وہ عجیب وغریب ہے اور مولانا نے کس پیارے اندازسے اسے بیان فرمایاہے ؎ باز گفت او ایں سخن با آسیہ گفت جاں افشاں بریں اے دلِ سیہ