معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کو بنایااورانہوں نے مثنوی کی تکمیل فرمائی یعنی مفتی الٰہی بخش کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی روح پر مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی روح کا فیض مشاہدہ کیا۔ چناں چہ فرماتے ہیں ؎ آمدی در من مرا بردی تمام اے تو شیرِِِ حق مرا خوردی تمام مولانا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے جلال الدین رومی! آپ نے میری روح پراپنے انوارکا ایسا تسلّط فرمادیا کہ میرا وجود کالعدم ہوگیا ، اے کہ تو گویاشیرِِ حق ہے جس نے میری ہستی کو فنا کردیاہے یعنی دفترِ سادس مثنوی کی تکمیل کی پیشین گوئی کے مطابق میرے قلب پرمولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی روحِ پاک مضامین اور مَعارف کو القاء کررہی ہے۔ پس یہ کلام بھی اگرچہ میری زبان سے نکلے گالیکن وہ درحقیقت مولانا ہی کا کلام ہوگا۔ یعنی بمصداق ؎ گرچہ قرآں از لبِ پیغمبرﷺ است ہر کہ گوید حق نگفت او کافر است مفتی الٰہی بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ بارہویں صدی کے آدمی ہیں اور مولانا روم علیہالرّحمۃ ساتویں صدی کے ہیں۔مفتی الٰہی بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہری علوم کی تکمیل حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے کی تھی۔ مبارک تجھے اے مری آہِ مضطر کہ منزل کو نزدیک تر لارہی ہے (اخترؔ)