معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
وقت رخصت کا ہے اب میرا قریب کس کو سونپوں یہ امانت اے حبیب پس اچانک غیب سے آئی صدا شمس تبریزی تو فوراً روم جا مولوی رومی کو کر مولائے روم اس کو فارغ کر تو از غوغائے روم الغرض از حکمِ غیبی شمسِ حق روم کی جانب چلا از امرِ حق مولوی رومی پہ ڈالی کیا نظر گر پڑے بے ہوش رومی راہ پر علم و فن کا جبّہ نذرِ جام ہے کامراں ہونے کو تشنہ کام ہے اک زمانہ مولوی رومی کا تھا صد وقار و شوکت و شاہی کا تھا ایک عزّت نسبتِ خوارزم شاہ دوسری صد علم و فن سے ناز و جاہ جب کہیں ان کا سفر ہوتا کبھی آتی فوراً خاص شاہی پالکی لشکر و خدام و شاگرداں سبھی احتراماً ساتھ ہو لیتے سبھی دست بوسی پائے بوسی کا ہجوم ہر طرف سے بس مچی ہوتی تھی دھوم آج رومی گر گیا غش کھا کے آہ نذرِ عشقِ حق ہوئی سب عزّ و جاہ کیا نظر تھی شمس تبریزی کی آہ مولوی رومی ہوئے سردارِ راہ پیر رومی ہوش میں جب آگئے شمس تبریزی کے پیچھے چل پڑے شیخ کا بستر لیے سر پر چلے عشق کی ذلت سے سودا کر چلے عشق کب رکھتا ہے فانی سلطنت خاک میں ملتی ہے فانی تمکنت عشق کی عزّت ہے عزّت دائمی عشق کی لذّت ہے لذّت سرمدی الغرض رومی جلال الدین پر شمس دیں کا ہوگیا پورا اثر شمس تبریزی نے نسبت آتشیں سینۂ رومی میں بھر دی بالیقین پیر کے ہاتھوں سے جو نعمت ملی مثنوی ہے صد تشکر سے بھری