معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
زیں سبب ہنگا مہا شد کل ہدر باشد ایں ہنگامہ ہردم گرم تر عاشق اور معشوق دونوں میں سے کسی ایک کی موت یا بسبب بیماری یا بڑھاپا حسن کازوال ہوجانے سے عشقِ مجازی کے ہنگامے سرد پڑجاتے ہیں اورعشقِ حقیقی کا ہنگامہ ہردم اور ہمیشہ گرم تررہتاہے۔ مرنے کے بعد برزخ سے میدانِ محشر اور جنت تک خدا کے عاشقین کی زبان پر مولیٰ ہی مولیٰ کی رٹ ہوگی۔ لیلیٰ و مجنوں کی حکایت سے کسی اہلِ نفس کوعشقِ مجازی کے جواز کا شبہ نہ ہونا چاہیے کہ عشقِ مجازی مطلق حرام ہے اورمجاز بالکل حقیقت کی ضد ہے اوراجتماعِ ضدین محال ہے۔ پس مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا مجنون لیلیٰ کی حکایت سے خدا کی محبت سکھانے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چھوٹے بچوں کوقاعدہ پڑھاتے وقت حروف سکھانے کے لیے لام سے لڈوپڑھایاجاتاہے کیاوہاں مقصود لڈوہوتاہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہاں لڈو نہیں دھراہوتابلکہ صرف لام کاحرف سکھاناہوتاہے ۔ اسی طرح الف سکھانے کے لیے وہیں الّوکی تصویر ہوتی ہے اور پڑھاتے وقت الف سے الّو پڑھایا جاتاہے، تو کیا اس سے الّو کی اہمیت مقصودہے یابچوں کی طبیعت کی رعایت سے الّو اور بندر کا نام لیاجاتاہے کہ اسی بہانے سے حروف یاد کرلیں گے۔ پس یادرکھیے۔ خلق اطفالند جز مستِ خدا نیست بالغ جز رہیدہ از ھویٰ تمام مخلوق بچے ہیں،نابالغ ہیں سوائے مستانِ خدا اورجانبازانِ خداکے اور جب تک خواہشاتِ نفس کے چنگل سے آزادی نہ ہوتووہ بالغ جسم کے اعتبار سے ہے۔ روح کے اعتبار سے نابالغ ہے خواہ سو برس کاہی کیوں نہ ہو۔ اب ناظرین کویہ بات واضح ہوجاوے گی کہ مولانارومی رحمۃ اللہ علیہ کا حکایتِ مجنون ولیلیٰ بیان کرنا صرف ہمارے طفلانہ طبائع کی رعایت سے ہے تاکہ ہم اسی بہانے سے خداکی محبت سیکھ جاویں جیساکہ عشقِ مولیٰ