معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہیں۔ خوب سمجھ لیجیے۔)خاموش ہیں مگر ان کے نعروں کی تکرار محبوبِ حقیقی اور تخت محبوبِ حقیقی تک رساں ہورہی ہے ۔ میرا پیام کہہ دیا جا کے مکاں سے لا مکاں اے مری آہِ بے نوا تو نے کمال کردیا (اختر) ان مبارک تنہائیوں کوکس کو دکھایاجارہاہے کہ وہ حلوامانڈاپیش کرے جب کہ یہ آہیں ساری کائنات سے مخفی ہیں۔ آہ را جز آسماں ہمدم نبود راز را غیرِ خدا محرم نبود ان مقبولین کی آہوں کا بجز آسمان کے کوئی ہمدم نہیں اور ان کے اس رازِ محبت کاغیرِ خدا کوئی محرم نہیں۔ اب اس واقعہ سے حسیات میں گفتگوکرتاہوں کہ لیلیٰ جو سڑنے والی،پیشاب پائخانہ والی لاش تھی وہ تومجنوں بنادے اور وہ ذاتِ پاک جولاکھوں ایسی لیلیٰ کوبناتی ہے اورپھربگاڑدیتی ہے کیا وہ سرچشمۂ نقش ونگار اور مرکزِحسن اپنے حسن وعشق کامجنون نہیں بناسکتی۔ وہ ذات پاک ہے، اس کے مجنوں بھی پاک ہوتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام اوراولیائے کرام کی جانیں اس کی مجنون ہیں جودونوں جہان میں سرخرو اور معزز ہیں۔ حق تعالیٰ اپنے عاشقوں کو یہ انعام دیتے ہیں برعکس لیلیٰ کے مجنوں کوکیاملا؟ اورمجازتوخود لغت میں خلافِ حقیقت کوکہتے ہیں۔ پھر وہ انعام بھی خلافِ حقیقت دیتاہے یعنی عشقِ مجازی کا مبتلا ہمیشہ دھوکے میں رہتاہے، جس حسن پرمرتاہے وہ حسن محبوب کی موت سے ختم ہوجاتاہے اورپھرہاتھ مَلتاہے یاخودہی مرگیا توکس قدر حسرت سے جاتاہے اورعاشقِ حق کا محبوب حق تعالیٰ کی ذات ہے جو غیرفانی ہے اس لیے اس کے عشق کا ہنگامہ ہمیشہ گرم تر رہتاہے اورمرتے وقت اپنے محبوبِ حقیقی کی ملاقات کی امید کی مسرت لے کرجاتاہے۔ مولانا فرماتے ہیں: