معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کے کم از لیلیٰ بُود‘‘سے مولانا نے بالکل واضح کردیاہے۔ اگرمجنون کولیلیٰ کی قبر کھود کر اس کی سڑی ہوئی بدبودارلاش دکھائی جاتی تواسے بھی اپنی زندگی رائگاں معلوم ہوتی اور عشقِ مجازی سے توبہ کرتااورحضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے کہ مجنون سے پاگل ہونے کے بعدوالے اعمال کے متعلق تومؤاخذہ نہ ہوگا مگرجن اختیاری اسبابِ عشقِ مجازی سے پاگل ہوا ہے اس کے بارے میں اس سے مواخذہ ہوسکتاہے۔ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے، خداوندتعالیٰ ہم سب کومحفوظ رکھیں۔ ایک بارتنہائی میں آپ کے بھتیجے مولانا شبیرعلی صاحب مرحوم نے کسی طالبِ علم کوکسی کام سے بھیجا۔ حضرت مولاناتھانوی رحمۃ اللہ علیہ بالاخانے کے کسی حجرے میں تصنیف کررہے تھے اس امرد کودیکھتے ہی نیچے اترآئے اور ایک منٹ بھی خلوت گوارا نہ کی اور مولانا شبیرعلی صاحب کو حکم دیاکہ کسی امردکوتنہائی میں میرے پاس نہ بھیجاکرو۔ حق تعالیٰ کے راستے میں اختلاط اجنبیہ عورت اور امرد(حسین لڑکے) کازہرِ قاتل ہے ان دو چیزوں سے سالکین اور طالبینِ حق کو اس طرح دور رہناچاہیے جس طرح زہریلے سانپ سے ؎ حسنِ فانی پر اگر تو جائے گا یہ منقش سانپ ہے ڈس جائے گا (مجذوبؒ) دوسرے گناہوں سے سالک کواتنا ضرر نہیں پہنچتاجتناکہ بدنگاہی اور عشقِ مجازی کے فتنے سے ضررہوتاہے، نہایت سخت تاریکی عشقِ مجازی سے پیداہوتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ سمتِ قبلہ بالکل تبدیل ہوجاتی ہے یعنی قلب اگرقطب نماتصورکیاجاوے اوراس کی سوئی کو حق تعالیٰ کی طرف نوے درجہ زاویہ قائمہ مغرب پرسمجھاجاوے تودوسرے معاصی اورگناہوں سے اگریہ سوئی دوچارڈگری شمال و جنوب مائل ہوتی ہے توتوبہ سے