معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اب مولانانصیحت فرماتے ہیں کہ اے لوگو!لیلیٰ کا عشقِ مجازی تو یہ اثردکھادے تو مولیٰ کا عشقِ حقیقی کب لیلیٰ کے عشق سے کم ہوسکتاہے ،مولیٰ کے لیے گیند بن جانا زیادہ اولیٰ ہے، جس طرح گیند کوہرشخص ٹھوکرلگاتاہے اور وہ برداشت کرتی ہے اسی طرح عشق کی راہ میں اپنے کو مٹانامطلوب ہے۔ فائدہ : اس واقعہ میں ان اہلِ ظاہراورمتقشف اورخشک لوگوں کے اس اعتراض کاجواب ہے جواللہ اللہ کرنے والوں پرہوتاہے کہ یہ صوفیا اللہ اللہ کا اتنا ذکراوراس قدراظہارِ عشق اورکثرتِ آہ وفغاں کیوں کرتے ہیں، ہم نے بھی تو اس قدرکتابیں پڑھی ہیں ہمارے پاس بھی کتب خانہ ہے، ہم بھی وعظ اور تقریرکرتے ہیں مگرہم کویہ باتیں کیوں حاصل نہیں۔ پھر خودہی دل میں اپنی محرومی کواس طرح سمجھالیتے ہیں کہ ان صوفیوں کا ہائے ہواور ذکر و شغل اورآہ ونالے سب خلق کودکھانے اوراپناگرویدہ بنا کر اپنا حلوا مانڈا درست کرنے لیے ہیں۔ ہائے کاش کہ یہ ظالم سچے اللہ والوں کی خلوتوں کامشاہدہ کرتے کہ وہاں کون مخلوق ہے جس کے سامنے وہ سجدوں میں سجدہ گاہوں کوآنسوؤں سے ترکررہے ہیں اور اپنی آہوں کورب العرش تک پہنچارہے ہیں اور اپناسب دکھ درداپنے مولیٰ سے رولیتے ہیں ؎ سارے جہاں کا دکھڑا مجذوب روچکا ہے اب اس پہ فضل کرنا یارب ہے کام تیرا یہ اولیائے پاک ہیں جن کی آہیں اور ان کاسلام وپیام مسلسل عرش اوررب العرش سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ خاموش بیٹھے ہیں مگران کے دل مولیٰ تک اپنے نعرۂ عشق پہنچارہے ہیں۔ خامش اندو نعرۂ تکرارِ شاں می رود تا یار و تختِ یارِ شاں ترجمہ : حضرات صوفیا (حضرات صوفیا سے مراد وہ ہیں جو متبعِ شریعت ہیں اور بقدرِ ضرورت علمِ دین سے واقف ہیں اور علمائے شریعت کا اکرام کرتے ہیں وہ جہال گمراہ صوفیا ہرگز مراد نہیں جو شریعت سے طریقت کوالگ سمجھتے ہیں اور اہلِ علم کی اہانت کرتے