معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حیلہا و چارہ جوئیہائے تو جذبِ ما بود وکشاد ایں پائے تو اوراے بندہ!میری محبت میں تیری یہ تدبیریں اورذکروشغل اورمحنتیں سب ہماری طرف سے جذب وکشش کاعکس ہیں، کسی نے خوب کہاہے۔ میری طلب بھی کسی کے کرم کا صدقہ ہے قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں ترس و عشقِ تو کمندِ لطفِ ماست زیرِ ہر یاربِّ تو لبیکہا ست اے بندہ! تیرا خوف اور تیرا عشق میری ذات سے میراہی انعام ہے اورمیری مہربانی ومحبت کی کشش ہے اورتیرے ہرباریارب اوریااللہ کی پکار میں میرا لبیک بھی شامل ہے۔ یعنی جب تویااللہ کہتاہے تومیری یہ آواز بھی وہیں موجودہے کہ حاضرہوں میں اے میرے بندہ! فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؎ جانِ جاہل زیں دُعاجز دور نیست زانکہ یارب گفتنش دستور نیست جاہل کی جان اس ذکرودعاسے محروم ہے اوران کویارب یارب کہنے کی توفیق ہی نہیں۔ فائدہ: ذاکرین کے لیے اس حکایت میں بڑی خوشخبری ہے،پس ذکرکے وقت یہ تصوربھی رکھاجاوے کہ ہمارا پہلااللہ قبول ہوتاہے جب ہماری زبان سے دوبارہ اللہ نکلتاہے اوریہی دوبارہ اللہ نکلناپہلے اللہ کی قبولیت کی علامت ہے۔ مبارک ہوذاکرین کےلیے یہ انعام۔اللہ تعالیٰ ہم سب کواپنے ذکرکی تا آخری سانس توفیق بخشیں۔آمین۔