معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دوسرافائدہ یہ ہے کہ دیواراینٹوں کی کمی سے پست ہورہی ہے اور جس قدر یہ نیچی ہوتی جارہی ہے اسی قدر پانی سے قرب بڑھتاجارہاہے۔ پس دیوار کی جدائی پانی کی ملاقات کا ذریعہ ہے۔ فائدہ : حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے اللہ! آپ سے ملاقات کاکیا ذریعہ ہے۔ارشاد ہوا: دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالَ نفس کو چھوڑدو اورمیرے پاس آجاؤ۔ اس حکایت سے سالکین کے لیے یہ سبق ملتاہے کہ سالک اور طالب اللہ کی پیاسِ شدیدمیں مبتلاہے اور نفس سامنے دیوارِ بلند کی طرح حائل ہے اور نفس کے آگے دریائے قربِ حق ہے، اب جو طالب نفس کومٹاناشروع کرے گا یعنی ایک ایک خواہش خلافِ شرع کو جو مثل اینٹ کے ہے دیوار نفس کی۔ دریائے قرب میں حصولِ رضائے الٰہی کے لیے گراناشروع کردے تو اس سے دوفائدے ہوں گے: اول:یہ کہ ہربری خواہش پرعمل نہ کرنے اوراس کی مرضیٔ حق میں فنا کر دینے سے دریائے قربِ الٰہی سے احساسِ قرب عطاہوگا۔ فائدۂ دوم : یہ کہ نفس کی دیوارجس قدر پست ہوتی جاوے گی،دریائے قربِ حق سے سالک قریب ہوتاجاوے گا۔یہاں تک کہ فنائیتِ تامّہ ایک دن قربِ تام کا سبب ہوگا۔ فنائیتِ تامّہ سے مراد یہ ہے کہ اپنی تمام خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کردے، جس دن یہ مقام مجاہدات اور کسی اللہ والے کی غلامی کے صدقے میں عطاہوگا توکیسی کچھ پاکیزہ حیات عطاہوگی، اس کاکچھ تصورخواجہ صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے کرلیاجاوے ؎ میں رہتا ہوں جنت میں دن رات گویا مرے باغِ دل میں وہ گلکاریاں ہیں