معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حاکمِ وقت نے بھی اس کو حکم دیاکہ اس کو اکھاڑدے،پھر بھی یہ ظالم یہی کہتارہا کہ کل اکھاڑ دیں گے اور یہ وعدۂ فردا وعدۂ امروز نہ بن سکا۔ اس تاخیر کا انجام یہ ہوا کہ یہ درخت مضبوط ہوگیااوراس قدرجڑیں گہرائی میں چلی گئیں کہ اس کا اکھاڑنا مشکل ہوگیا اور یہ ظالم اس کے اکھاڑنے سے عاجز ہوگیا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح ہماری بری عادتیں اور گناہ کے خصائل ہیں کہ ان کی اصلاح میں جس قدر دیرکی جاوے گی ان کی جڑیں مضبوط تر ہوتی جاویں گی جس طرح سے کہ آں درختِ بد جواں تر می شود ویں کنندہ پیر و مضطر می شود وہ بُرا درخت جوان ہوتاگیااور اس کا اکھاڑنے والابوڑھااورکمزور ہوتاگیا۔ خارِبن ہر روز ہر دم سبز تر خارِکن ہر روز زار وخشک تر خاردار درخت تو ہر روز سبز تر ہورہاہے اور اس کو اکھاڑنے والا ہر روز کمزور ہورہاہے۔ بارہا از فعلِ خود نادم شدی بر سرِ راہِ ندامت آمدی اے مخاطب ! بارہاتواپنے برے فعل سے نادم ہوا اور راہِ ندامت پر آگیا۔ بارہا از خوئے خود خستہ شدی حس نداری سخت بیحس آمدی بارہاتواپنی بری عادت سے عاجز و تباہ ہواہے، کیا تو بے حس ہوگیااے مخاطب! تو انتہا درجہ کا بے حس ہے۔ یا تبر بردار و مردانہ بزن تو علی وار ایں درِ خیبر بکن