معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
گفت شیخا وقتِ رحم و رافتست نا امیدم وقتِ لطف ایں ساعتست کہا:اے شیخ!یہ وقت رحم و مہربانی کا ہے، میں ناامید ہوگیاہوں اپنے مقصد ومراد میں یہ آپ کی مہربانی کا وقت ہے۔ شیخ نے کہا: کیا نامرادی ہے اور کیا مراد ہے تیری ؟اس نے عرض کیاکہ ؎ گفت شاہنشاہ کردم اختیار از برائے جستنِ یک شاخسار کہا کہ میرے بادشاہ نے مجھے یہ کام سپرد کیاتھا کہ میں ایسے درخت کو معلوم کرلوں۔ کہ درختے ہست نادر در جہات میوۂ او مایۂ آبِ حیات کہ ایک درخت نادرہندوستان کے اطراف میں ہے جس کا میوہ کھاکرآدمی ہمیشہ زندہ رہتاہے۔ سالہا جستم ندیدم ز و نشاں جز کہ طنز و تمسخرِ ایں سر خوشاں میں نے سالہا سال ڈھونڈامگراس کا نشان وپتا نہ ملا سوائے اس کے کہ میرا مذاق اڑایا گیا اور مجھے پاگل سمجھا گیا۔ شیخ خندید و بگفتش اے سلیم ایں درختِ علم باشد اے علیم شیخ یہ گفتگو سن کر ہنسااور اس سے کہا کہ اے سلیم! یہ درخت صرف علم کی نعمت ہے۔ علم سے انسان دائمی زندگی پاتاہے اور بے علم آدمی مردہ ہوتاہے ؎ تو بصورت رفتۂ گم گشت زاں نمی یابی کہ معنیٰ ہشتۂ توعلم کی صورت ڈھونڈرہاتھااس وجہ سے گم گشتۂ راہ ہوا اور صورت سے محروم اس لیے