معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اور اس بیماری کے سبب میں اپنے ذکر اور ان وظیفوں سے جو حالتِ صحت میں میرے معمولات تھے عاجز اور مجبور ہوگیاہوں اور اپنے اقربا اور ہرنیک وبد سے بے خبر پڑاہوں۔ اس مضمونِ دعا کو رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور منع فرمایاکہ آیندہ ایسی دعا کبھی مت کرنااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی دعاکو منافیٔ عبدیت قرار دیا۔ یعنی یہ آدابِ بندگی کے خلاف ہے کہ اپنے مولیٰ سے بلا و عذاب طلب کرے،کیوں کہ ایسی دعا کرنا گویادعویٰ کرناہے خداوند تعالیٰ کے سامنے کہ ہم آپ کی بلا وعذاب کو برداشت کرسکتے ہیں۔ چناں چہ رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نصیحت فرمائی کہ توچہ طاقت داری اے مورِ سقیم کہ نہد بر تو چناں کوہِ عظیم اے مخاطب! تو کیا طاقت رکھتاہے کہ تجھ جیسی بیمار چیونٹی پر خدائے پاک ایسا بڑا پہاڑ اپنی بلاکا رکھ دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایں بگوی و سہل کن دشوار را تا خدا گلشن کند آں خار را اب اس طرح سے دعا کرو کہ اے اللہ! میری دشواری کو آسان کردیجیے تاکہ خداتمہاری مصیبت کے کانٹے کو گلشنِ راحت سے تبدیل فرمادے ۔ اٰتِنَا فِیْ دَارِ دُنْیَانَا حَسَنْ اٰتِنَا فِیْ دَارِ عُقْبَانَا حَسَنْ اور اللہ سے کہو کہ اے اللہ! دنیا میں بھی مجھے بھلائیاں عطا فرما اور آخرت میں بھی ہم کو بھلائیاں عطا فرما۔ فائدہ : اس حکایت سے یہ سبق ملتاہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ سے بلا نہ مانگے، ہمیشہ دونوں جہان کی عافیت مانگتارہے اور اپنے رب کے سامنے اپنے ضعف اور عاجزی کا اقرار