معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
نوبتِ جُستن اگر در من رسد وہ کہ جانِ من چہ سختیہا کشد اگر موتی کی تلاشی کی نوبت خادمات سے گزرکر مجھ تک پہنچی تو اف! میری جان کس قدر سختی اور بلا کا عذاب چکھے گی۔ گر مرا ایں بار ستاری کنی توبہ کردم من ز ہر ناکردنی اگر آپ اس مرتبہ میری پردہ پوشی فرمادیں تو میں نے توبہ کی ہرنالائق فعل سے۔ نصوح یہ مناجات کرتے کرتے کہنے لگاکہ در جگر افتادہ ہستم صد شرر در مناجاتم ببیں خونِ جگر اے رب!میرے جگر میں سینکڑوں شعلے غم کے بھڑک رہے ہیں اور آپ میری مناجات میں میرے جگر کاخون دیکھ لیں کہ میں کس طرح حالتِ بے کسی اور درد سے فریاد کررہاہوں۔ نصوح اپنے رب سے گریہ و زاری کرہی رہاتھا کہ آواز آئی: جملہ را جستیم پیش آ اے نصوح گشت بے ہوش آں زماں پرّید روح یہ آواز آئی کہ سب کی تلاشی ہوچکی اب اے نصوح! تو سامنے آ اور عریاں ہوجا۔یہ سننا تھا کہ نصوح اس خوف سے کہ ننگے ہونے سے میرا پردہ فاش ہوگا، بے ہوش ہوگیا۔ اور اس کی روح عالمِ بالا کی سیر میں مشغول ہوئی ؎ جاں بحق پیوست چو بے ہوش شد بحرِ رحمت آں زماں در جوش شد اس کی روح بے ہوشی کے وقت حق سے قریب ہوئی اور بحرِ رحمت کو اس وقت جوش آیا