معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اور حق تعالیٰ کی قدرت سے نصوح کی پردہ پوشی کے لیے بلاتاخیر فورًا موتی مل گیا۔ بانگ آمد ناگہاں کہ رفت بیم شد پدید آں گم شدہ دُرِّ یتیم اچانک آواز آئی کہ خوف ختم ہوا اوروہ موتی گم شدہ مل گیا۔ آں نصوح رفتہ باز آمد بخویش دیدہ چشمش تابشِ صد روزہ بیش وہ بے ہوش نصوح پھر ہوش میں آگیااور اس کی آنکھیں سینکڑوں دن سے زیادہ روشن تھیں یعنی عالمِ بے ہوشی میں نصوح کی روح کو حق تعالیٰ کی رحمت نے تجلیاتِ قرب کا مشاہدہ کرادیا تھا جس کے انوار اس کی آنکھوں میں بعد ہوش کے بھی تاباں تھے۔ شاہی خاندان کی عورتوں نے نصوح سے معذرت کی اور شفقت سے کہا کہ ہماری بدگمانی کو معاف کردو، ہم نے تم کو بہت تکلیف دی۔ بدگماں بودیم مارا کن حلال لحمِ تو خوردیم اندر قیل و قال ہم بدگمان تھے ہم کو معاف کر،ہم نے قیل و قال سے تیرا گوشت کھایا یعنی غیبت یا تلاشی کے خوف سے۔ گفت بُد فضلِ خدا اے دادگر ورنہ زانچہ گفتہ شد ہستم بتر نصوح نے کہاکہ یہ خداکا فضل ہوگیا مجھ پر اے مہربانو! ورنہ جو کچھ میرے بارے میں کہا گیاہے ہم اس سے بھی برے اور خراب ہیں۔ اس کے بعد سلطان کی ایک دخترنے اس کو مالش اور نہلانے کو کہا مگر نصوح اللہ والا ہوچکا تھا اور بے ہوشی میں اس کی روح قرب کے خاص مقام پر فائز ہوچکی تھی اتنے قوی تعلق مع اللہ اور یقین کی نعمت کے بعد گناہ کی ظلمت کی طرف کس طرح رخ