معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
شیرِِ حقم نیستم شیرِِِ ہوٰی فعلِ من بر دینِ من باشد گوا میں خدا کا شیر ہوں، نفسانی خواہش کا شیر نہیں ہوں ، میرا یہ فعل میرے دین کی صداقت پر گواہ ہے۔ چوں خیو ا نداختی بر روئے من نفس جنبید و تبہ شد خوئے من جب تو نے میرے چہرے پر تھوک ڈالا اس وقت میرے نفس میں ہیجان اور جذبۂ انتقام ابھرا اور میری خو تباہ ہوگئی۔ نیم بہرِ حق شد و نیمے ہوا شرکت اندر کارِ حق نبود روا آدھاعمل تو خدا کے لیے ہوتااورآدھا نفس کے غضب وانتقام سے ہوتااور خدا کے لیے جو کام ہو اس میں شرکت جائز نہیں وہ صرف خدا ہی کے لیے ہونا چاہیے۔ گفت من تخمِ جفا می کاشتم من ترا نوعِ دگر پند اشتم کافر نے کہا: میں تو ظلم کی تخم ریزی کرتاہوں مگر آپ کو نوعِ انسانیت کی عظیم نوع سمجھتاہوں ؎ خلاصہ یہ کہ یہ کافر مشرف باسلام ہوا جس کو مولانا اس انداز سے فرماتے ہیں: تیغِ حلمِ او ز آہن تیز تر بلِّ صد لشکر ظفر انگیز تر ترجمہ : حلم کی تلوار لوہے کی تلوار سے زیادہ تیز ہے اثر میں ،بلکہ فتح حاصل کرنے میں حلم زیادہ مؤثر ہے سینکڑوں لشکر سے۔ فائدہ : احقرمؤلف(رحمہ اللہ تعالیٰ) عرض کرتاہے کہ اس حکایت سے اعمال میں