معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اخلاص کا بہت بڑا سبق ملتاہے ،جو کام کرے نیت درست کرلے، اگر اخلاص ہو تو دنیابھی دین بن جاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کسبِ حلال کے لیے ’’لے امرود، لے امرود‘‘ کہتا ہے اور نیت ہے کہ اس سے بال بچوں کے لیے اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق حلال روزی کماؤں گا، ہر’’لے امرود‘‘پر اس کو ثواب لکھاجائے گا اور اگرسبحان اللہ سبحان اللہ، کہہ رہاہے اور نیت یہ ہے کہ اس سے لوگ مجھے بزرگ اور نیک سمجھ کر اپنا مال حوالے کریں گے اور دنیا ملے گی تو اس کا سبحان اللہ بھی دنیا ہے ، دین نہیں۔ پس اخلاص بہت ضروری ہے ورنہ سب کیا دھرا اکارت اورضایع ہونے کا خطرہ ہے اور اخلاص سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی اخلاص والے بندے سے اخلاص کو سیکھا جاوے، اللہ والوں کی صحبت سے یہ نعمت ملتی ہے، صرف کتابوں سے نہیں ملتی۔ علمِ کتابی اور صحبت دونوں ضروری ہیں بلکہ صحبت یافتہ بقدرِ ضرورت دین کا علم بھی سیکھ جاتے ہیں اور مقبول ومحبوب بھی ہوجاتے ہیں اور صرف کتاب والا بدون صحبت کے ہرگزاصلاح یافتہ نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ تزکیہ فعلِ متعدی ہے اس کے لیے ایک مزکّی ضروری ہے، یہ فعلِ لازم نہیں ہے کہ خود اپنے فاعل پر پورا ہوجائے، اسی طرف یہ آیت راہ بری کرتی ہے:وَیُزَکِّیْہِمْ۔اس لفظ میں مزکی حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور مُزکّٰی حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اپنی اصلاح وتزکیہ خودنہ کرسکے حالاں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک زمانہ ہے، قرآن اتررہاہے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کی آمد ورفت ہورہی ہے تو اب کسی کا کیا منہ ہے جویہ کہے کہ ہمیں اپنا کتابی مطالعہ ہماری اصلاح کے لیے کافی ہے۔ ایسے لوگوں کا خود ضمیر بھی خوب سمجھتاہے کہ یہ لچر حیلے ہیں اور نفس کی کاہلی اور حبِّ دنیا اور جاہ کسی اللہ والے کے پاس نہیں جانے دیتی۔ دنیا کے نقد عیش وجاہ کو آخرت کے عیش پر ترجیح دے رکھاہے۔ نفس غالب ہے، مقاومت کی ہمت نہیں اور اصل سبب حق تعالیٰ کی طلب وپیاس کامل اور معتد بہ نہیں، اسی وجہ سے تھوڑے سے دین پر راضی ہوگئے۔ مگر تھوڑی دنیا پر راضی نہیں، رات دن دھن ہے کہ کہیں سے مال ہاتھ لگے ؎