معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
مولانا فرماتے ہیں: اندکے سرگینِ سگ در آستین خلق را بشگافت و آمد با چنیں اس کا بھائی دوڑ کر کتے کا پائخانہ آستین میں چھپاکرلایا اور ہجوم کو چیرتاہوااپنے بھائی کے پاس پہنچا۔ سر بگو شش برد ہمچو ر از گو پس نہادہ چرک بر بینئ او اپنے بھائی کے پاس اپنا سر لے گیا جیسے کہ کوئی راز کی بات اس سے کہنی ہے۔ اور پھر اس کی ناک پر وہ پائخانہ کتے کا رکھ دیا۔ اس علاج سے فورًا اس کو ہوش آگیا۔ فائدہ : احقرمؤلّف(رحمہ اللہ تعالیٰ) عرض کرتاہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت واطاعت کی خوشبو سے جو گھبرارہاہو اور اتباعِ سنت کی زندگی سے جس کا دل مانوس نہ ہورہاہوتو اس کو وہی بیماری سمجھنا چاہیے جو قصۂ مذکورہ میں دباغ کو تھی یعنی جس گندے معاشرے اور گناہوں کے ماحول میں اس نے ایک طویل عمر گزاری ہے اس کے دل ودماغ اسی گندگی سے مانوس ہوگئے ہیں۔ اب اس کا علاج صرف یہ ہے کہ آہستہ آہستہ اس گندے ماحول سے نکل کر خوشبودار چمن کی سیر کیا کرے اور وہ اللہ والوں کی مجلسیں اور ان کی صحبت ہے، پھر وہاں چند دن رہنے کے بعد یہی شخص کہے گا کہ ہائے! ہم کس قدر گندگی میں تھے اور ماضی کی گندگی کے تصور سے اشکبارہوکر آہ کھینچے گا اور اللہ والوں کی صحبتوں کا شکر گزار ہوگا کہ اب ناک اس کی روز بروزخوشبو یعنی اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور غلامی کے لطف سے مست وسرشار ہوگی اور کہہ اٹھے گا ؎ میں دن رات رہتا ہوں جنت میں گویا مرے باغِ دل میں وہ گلکاریاں ہیں (مجذوبؔؒ )