معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ آگے مولانا فرماتے ہیں کہ کسی پر غیب سے علوم ومَعارفِ کا وارد ہونا علامت ہے کہ اس شخص کے قلب پر حق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے خاص فیضانِ رحمت ہے اور اس کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں: چوں بہ بینی بر لبِ جو سبزہ مست پس بداں از دور کا ینجا آب ہست جب تو ندی کے کنارے پر سبزہ مست دیکھے تو دور ہی سے یقین کرلے کہ اس جگہ پانی موجود ہے ۔ گفت سیماہم وجوہِ کرد گار کہ بود غمّازِ باراں سبزہ زار حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے چہروں سے ان کے قلب کا نور چھلکا پڑتاہے اور یہ فراوانیٔ نور کثرتِ عبادت بالخصوص تہجد کی نماز اور استغفار و آہِ سحر سے ہے۔ دوسرے مصرعہ میں ایک اور مثال دیتے ہیں کہ بارش کی مخبری سبزہ زارکرتاہے ؎ گر ببا رد شب نہ بیند ہیچ کس کہ بود در خواب ہر نفس و نفس اگرشب کو بارش ہو اور کوئی بارش کونہ دیکھے کیوں کہ رات کو ہرسانس لینے والانیند میں بے خبر ہوتاہے لیکن صبح جب باغوں کو ہرابھرادیکھتاہے تو سمجھ جاتاہے کہ رات بارش ہوئی تھی۔ تازگیٔ ہر گلستانِ جمیل ہست بر بارانِ پنہانی دلیل